نماز اشراق، چاشت، ضحی اور صلاۃ الاوابین
تعریف اور وقت
ضحی کا مطلب ہے: "دن کا چڑھنا”
اشراق کا مطلب ہے: "طلوع آفتاب”
جب سورج طلوع ہو کر ایک نیزے کے برابر بلند ہو جائے تو اس وقت نوافل ادا کیے جاتے ہیں، جسے نماز اشراق کہتے ہیں۔
اسی نماز کو نماز چاشت، نماز ضحی، اور صلاۃ الاوابین (اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز) بھی کہا جاتا ہے۔
احادیث سے وضاحت
◈ سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل قبا کے پاس آئے، وہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اوابین کی نماز کا وقت وہ ہے جس وقت اونٹ کے بچے کے پاؤں گرم ہوں۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ الاوابین حین ترمض الفصال:۴۴۱۔(۸۴۷)
◈ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا ہی اشراق کی نماز کی حفاظت کرتا ہے اور یہی صلاۃ الاوابین ہے۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۳۰۷. صحیح ابن خزیمہ:۷۵۱۱.)
مغرب اور عشا کے درمیان پڑھی جانے والی جس نماز کو صلاۃ الاوابین کہا گیا ہے، وہ روایت مرسل (ضعیف) ہے۔
فتویٰ
فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نماز ضحٰی کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ایک نیزہ کے برابر بلند ہو جائے اور زوال سے تھوڑا پہلے (تقریباً نصف گھنٹہ پہلے) تک رہتا ہے۔ افضل وقت وہ ہے جب گرمی کی شدت کی وجہ سے اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنا شروع ہو جائیں۔”
(فتاویٰ اسلامیہ اول ص ۲۵۴.)
نماز اشراق کی فضیلت
صدقے کے برابر اجر
◈ سیّدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر آدمی پر لازم ہے کہ اپنے (جسم کے) ہر بند (جوڑ) کے بدلے صدقہ دے۔ سبحان اللّٰہ، الحمد للّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ اور ان سب چیزوں سے ضحی کی دو رکعتیں کفایت کرتی ہیں۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب صلاۃ الضحی و ان اقلھا رکعتان: ۰۲۷.)
دن بھر کی کفایت
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے! اے آدم کے بیٹے، خالص میرے لیے دن کے اول حصے میں چار رکعتیں پڑھ، میں تجھے اس دن کی شام تک کفایت کروں گا۔”
(ابو داود، التطوع، باب صلاۃ الضحی، حدیث ۹۸۲۱، ترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء فی صلاۃ الضحی: ۵۷۴)
حافظ ذہبی نے اسے حسن اور قوی الاسناد کہا، امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا۔
عمرہ کے برابر ثواب
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص وضو کرکے نماز ضحی کے لیے گھر سے نکلے، تو اسے ایسا ثواب ملتا ہے جیسے احرام باندھ کر عمرہ کے لیے جانے والے کو۔”
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب ما جا فی الفضل المشی الی الصلاۃ: ۸۵۵.)
فرضیت کا خدشہ اور اس کا زوال
◈ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اعمال کو چھوڑ دیتے حالانکہ آپ کو وہ پسند ہوتے،
آپ ڈرتے کہ کہیں لوگ اس پر عمل شروع نہ کر دیں اور وہ فرض نہ ہو جائے۔
(بخاری: أبواب التہجد، باب: تحریض النبی علی صلاۃ اللیل: ۸۲۱۱، مسلم: ۸۱۷.)
آپ کی وفات کے بعد یہ خوف ختم ہو گیا، اس لیے نماز چاشت اب مستحب ہے۔
نماز اشراق کی رکعتیں
◈ سیدہ معاذہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ضحی کی کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟”
انہوں نے فرمایا:
"چار رکعتیں اور جتنا اللہ تعالیٰ چاہتے، آپ اس سے زیادہ بھی پڑھتے۔”
(مسلم: ۹۱۷.)
◈ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن غسل فرمایا اور آٹھ رکعت نماز ضحی ادا کی۔”
(بخاری، التھجد، باب صلاۃ الضحی فی السفر: ۶۷۱۱، مسلم: الحیض، باب: تستر المغتسل بثوب: ۶۳۳.)
معلوم ہوا کہ چاشت کی نماز دو، چار یا آٹھ رکعت تک ہو سکتی ہے۔
◈ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"مجھے میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کی:
ہر قمری مہینے میں تین روزے (13، 14، 15)،
چاشت کی دو رکعتیں،
اور سونے سے پہلے وتر۔”
(بخاری، التھجد، باب صلاۃ الضحی فی الحضر: ۸۷۱۱، مسلم: ۱۲۷.)
فجر کے بعد اشراق کا طریقہ
◈ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی، پھر طلوع آفتاب تک بیٹھا رہا اور اللہ کا ذکر کرتا رہا، پھر سورج نکلنے کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے حج اور عمرہ کا ثواب ہے، بلکہ آپ نے تین بار فرمایا: پورے حج اور عمرہ کا، پورے حج اور عمرہ کا، پورے حج اور عمرہ کا۔”
(ترمذی: ابواب السفر، باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس فی المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس: ۶۸۵.)
◈ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک مسجد میں بیٹھے رہتے،
جب سورج نکلتا تو آپ اُٹھ کر جاتے۔”
(مسلم، المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح: ۰۷۶.)
◈ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا، انہوں نے بڑی غنیمت حاصل کی۔
کسی نے کہا: ہم نے اس سے زیادہ بڑی غنیمت والا لشکر نہیں دیکھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کیا میں تمہیں ایسے شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو ان سے بھی بڑی غنیمت لایا اور جلد واپس آیا؟ وہ شخص جس نے گھر میں وضو کیا، پھر سکون سے مسجد گیا، فجر کی نماز پڑھی اور چاشت کی نماز ادا کی، وہ سب سے بڑی غنیمت لانے والا اور جلدی پلٹنے والا ہے۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۱۳۵۲.)