نماز استسقاء کے 10 مسنون طریقے اور نبوی دعائیں

نمازِ استسقاء: تفصیلی وضاحت، مسنون طریقہ، اور نبویؐ تعلیمات

قحط سالی کے وقت مسلمانوں کا طرزِ عمل

جب کسی علاقے میں قحط سالی ہو جائے اور بارش نہ ہو، تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لیے مخصوص دن مقرر کریں:

◈ سورج نکلتے ہی پرانے لباس پہن کر عاجزی اور گریہ و زاری کے ساتھ کھلی جگہ، جیسے عیدگاہ، کا رخ کریں۔
◈ وہاں منبر رکھا جائے۔
◈ خشوع و خضوع کے ساتھ دعا و نماز ادا کی جائے۔

سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرانے کپڑے پہنے، خشوع اور آہستگی سے چلتے ہوئے، عاجزی اور گریہ زاری کرتے ہوئے نکلے اور نماز (استسقاء) کی جگہ پہنچے۔”
(ابو داؤد، صلاۃ الاستسقاء، ۵۶۱۱۔ ترمذی، ابواب السفر، باب ماجاء فی صلاۃ الاستسقاء، ۷۵۵)
(امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام حاکم اور امام نووی نے اسے صحیح کہا۔)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت

جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قحط کی شکایت کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:

◈ عید گاہ میں منبر رکھنے کا حکم دیا۔
◈ سورج طلوع ہوتے ہی منبر پر بیٹھے۔
◈ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔
◈ قحط سالی کا ذکر فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دی۔
◈ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی:

’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ۔ اَللّٰہُمَّ أَنْتَ اللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِیُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ أَنْزِلْ عَلَیْنَا الْغَیْثَ وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّۃً وَّبَلَاغًا إِلٰی حِیْنٍ.‘‘
’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، بہت رحم کرنے نہایت مہربان ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ اے اللہ تو سچا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تو سخی اور بے پرواہ ہے اور ہم تیرے محتاج اور فقیر (بندے) ہیں ہم پر بارش برسا اور جو بارش تو نازل فرمائے اسے ہمارے لیے ایک مدت تک قوت اور (مقاصد تک) پہنچنے کا ذریعہ بنا۔

◈ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
دونوں ہاتھوں کو تدریجی انداز میں بلند کیا یہاں تک کہ بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو گئی۔
◈ قبلہ رخ ہو کر چادر کو پلٹا۔
◈ منبر سے اتر کر دو رکعت نماز پڑھائی۔
◈ اسی وقت اللہ کے حکم سے بارش نازل ہوئی۔

(ابوداود، الاستسقاء، باب رفع الیدین فی الاستسقاء، ۳۷۱۱۔ امام حاکم، ابن حبان اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

خطبہ قبل از نماز

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء سے پہلے خطبہ دیا۔
(ابن خزیمۃ، جماع ابواب صلوٰۃ الاستسقاء باب الخطبۃ قبل صلوٰۃ الاستسقاء حدیث ۷۰۴۱)

دعا کے وقت ہاتھ بلند کرنا

سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں دونوں ہاتھ بلند نہ کیے۔
استسقاء کے وقت ہاتھ بلند کیے یہاں تک کہ بغلیں ظاہر ہو گئیں۔
(بخاری، الاستسقاء، باب رفع الامام یدہ فی الاستسقاء، ۱۳۰۱۔ مسلم ۵۹۸)

ایک اور روایت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے، چہرے کے سامنے ہاتھ بلند کیے لیکن سر سے اوپر نہیں تھے۔
(ابوداود، الاستسقاء، باب رفع الیدین فی الاستسقاء، ۸۶۱۱۔ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)

ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف اللہ ہی کو سخی و داتا سمجھتے تھے اور براہ راست اسی سے دعائیں مانگتے تھے۔
قرآن کریم میں بھی یہی عقیدہ بیان کیا گیا ہے۔
(فاطر ۴۱/۵۳ و ۵۱)
لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ کو ہی سخی و داتا سمجھیں، اور اسی سے دعائیں مانگیں۔ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت کا تقاضا ہے۔ (ع، ر)

دعا کرتے وقت ہاتھوں کی سمت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف تھی۔
(مسلم، صلاۃ الاستسقاء، باب رفع الیدین بالدعاء فی الاستسقاء: ۶۹۸)

دعا کے الفاظ (استسقاء کی دعائیں)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے خطبہ میں دعا فرمائی:
’’اَللّٰہُمَّ أسْقِنَا، اَللّٰہُمَّ أسْقِنَا، اَللّٰہُمَّ أسْقِنَا.‘‘
’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا۔‘‘
(بخاری، الاستسقاء: ۳۱۰۱)

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
"اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ”
’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا، ہم پر ایسی بارش نازل فرما جو ہماری تشنگی بجھا دے۔ ہلکی پھواریں بن کر غلہ اگانے والی، نفع دینے والی ہو نہ کہ نقصان پہنچانے والی، جلد آنے والی ہو نہ کہ دیر لگانے والی۔‘‘
(ابو داود: ۹۶۱۱۔ امام ابن خزیمہ، امام حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا:
’’اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائِمَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ‘‘
(اے اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں کو سیراب فرما، اپنی رحمت پھیلا، اور اپنے مردہ شہروں کو زندہ کر دے)
(ابو داود: ۶۷۱۱، سند حسن)

چادر کا پلٹنا (تحویل رداء)

سیّدنا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ کی طرف نکلے۔
آپ نے لوگوں کی طرف پیٹھ کی اور قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔
پھر چادر کو پلٹا اور دو رکعت نماز پڑھائی۔
(بخاری، الاستسقاء، باب کیف حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہرہ الی الناس، ۵۲۰۱۔ مسلم ۴۹۸)

ایک اور روایت میں ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر سیاہ چادر تھی۔
اس کو پلٹنے میں مشکل پیش آئی تو آپ نے چادر کو کندھوں پر ہی الٹ دیا۔
(ابو داود، صلاۃ الاستسقاء، حدیث ۴۶۱۱۔ امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)

چادر پلٹنے کا طریقہ یہ تھا کہ دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر ڈال دیا جاتا۔
(مسند احمد ۴/۱۴، ۹۷۵۶۱، ابن دقیق العید نے اسے صحیح کہا)

نماز استسقاء کا طریقہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز استسقاء پڑھائی۔
(ترمذی، ابواب السفر، باب ماجاء فی صلوٰۃ الاستسقاء، ۸۵۵۔ ابو داؤد:۵۶۱۱)
(امام ترمذی، امام ابن خزیمہ اور امام نووی نے اسے صحیح کہا۔)

سیّدنا عبد اللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔
بلند آواز سے قراءت کی۔
اذان و اقامت کے بغیر نماز ادا کی۔
(بخاری، الاستسقاء، باب الدعاء فی الاستسقاء قائمًا: ۲۲۰۱)

ابن بطال فرماتے ہیں:
علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز استسقاء میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1