نماز میں آمین بالجہر کہنے کی شرعی حیثیت
تمہید
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں "آمین” کہنا ایک اہم سنت ہے، اور اس سلسلے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ سری نمازوں میں آمین آہستہ کہنی چاہیے۔ البتہ جہری نمازوں کی جہری رکعتوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، جمہور تابعین، اور دیگر محدثین کی واضح رائے ہے کہ آمین بلند آواز سے (بالجہر) کہنی چاہیے۔
جلیل القدر آئمہ کی رائے
◈ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ
ان سب کی تحقیق یہی ہے کہ جہری نمازوں میں آمین بلند آواز سے کہنا افضل اور مسنون ہے۔
(دیکھئے: سنن ترمذی، کتاب الصلوٰۃ، باب ما جاء فی التامین، حدیث 248)
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا اعلان
امام مسلم بن الحجاج رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کتاب التمییز میں اعلان فرمایا:
"قد تواترت الروايات كلها أن النبي صلى الله عليه وسلم جهر بآمين”
ترجمہ: تمام احادیث کا تواتر اس بات پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر کہی۔
(الاول من کتاب التمییز للامام ابی الحسین مسلم بن الحجاج القشیری ص40، حدیث 38)
متواتر روایات کا بیان
ذیل میں ان متواتر اور مستند احادیث کا ذکر کیا جا رہا ہے جو آمین بالجہر کے جواز اور سنت ہونے پر دلالت کرتی ہیں:
➊ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت
"أنه صلى خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجهر بآمين”
ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تو آپ نے آمین بلند آواز سے کہی۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، باب التامین دراء الإمام، حدیث 933، صحیح)
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "ورفع بها صوته” کے الفاظ سے روایت کیا، جس کی سند حسن ہے اور متعدد شواہد کی بنا پر صحیح شمار ہوتی ہے۔
شعبہ کی روایت میں اضطراب کی وجہ سے جمہور محدثین نے اُسے ضعیف قرار دیا ہے۔
خود امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی آمین بالجہر مروی ہے۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: کتاب "مسئلہ آمین بالجہر”، ص23 تا 31، دوسرا نسخہ: ص35، 36)
➋ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع صوته بآمين”
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورۃ الفاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔
(ابن خزیمہ 1/287، 3/148، حدیث 1806، المستدرک للحاکم 1/223، و صححہ، و وافقہ الذہبی، دارقطنی 1/330، البیہقی – بحوالہ: التلخیص الجبیر 236، اعلام الموقعین لابن القیم 2/397)
یہ روایت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ تک حسن لذاتہ ہے۔
البتہ چونکہ امام زہری مدلس تھے اور انہوں نے "عن” کے ساتھ روایت کی ہے، اس لیے سند ضعیف شمار ہوتی ہے۔
➌ سیدنا عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ
وہ اور ان کے مقتدی آمین بلند آواز سے کہتے تھے۔
(صحیح بخاری مع فتح الباری، جلد 2، صفحہ 208، قبل حدیث 780، مصنف عبدالرزاق، حدیث 2640)
➍ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
جب امام کے پیچھے نماز پڑھتے تو سورہ فاتحہ مکمل کرنے کے بعد مقتدیوں کے ساتھ مل کر آمین کہتے، اور اسے سنت سمجھتے تھے۔
(صحیح ابن خزیمہ، جلد 1، صفحہ 287، حدیث 572)
➎ تابعی عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت
"ہماری مسجدوں میں لوگ آمین بلند آواز سے کہتے تھے، یہاں تک کہ آمین کی آواز سے مسجدیں گونج اٹھتی تھیں۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 2، صفحہ 425)
اس کی سند صحیح ہے۔
➏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت
فرمایا کہ یہودی لوگ مسلمانوں سے امام کے پیچھے آمین کہنے پر حسد کرتے تھے۔
(مسند احمد، جلد 6، صفحہ 134، ابن ماجہ 1/278، حدیث 856، سندہ صحیح)
یہ روایت اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔
➐ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت
یہودی مسلمانوں سے جن باتوں پر حسد کرتے تھے، ان میں سے تین یہ ہیں:
◈ سلام کا جواب دینا
◈ صفوں کو درست طریقے سے قائم کرنا
◈ فرض نمازوں میں امام کے پیچھے آمین کہنا
(الاوسط للطبرانی، جلد 5، صفحات 473، 486، حدیث 4908)
➑ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث
ان سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جیسی روایت منقول ہے۔
(تاریخ بغداد 11/43، المختارہ للضیاء المقدسی 1/45)
➒ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث
(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ 287، حدیث 854، الخلافیات مخطوط، صفحہ 52)
➓ امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کا عمل
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 2، صفحہ 426)
نتیجہ اور خلاصہ
آمین بالجہر کی مشروعیت پر متواتر احادیث دلالت کرتی ہیں۔
جبکہ آمین بالسر کی جو روایات ہیں، وہ خبر واحد ہیں اور کئی لحاظ سے ضعیف بھی ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر آمین بالسر ضعیف ہے:
◈ ان روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
◈ امام شعبہ سے آمین بالجہر بھی مروی ہے، لہٰذا انہیں وہم ہوا۔
◈ یہ روایت دیگر ثقہ راویوں کی مخالفت کرتی ہے۔
◈ کسی صحابی سے جہری نماز میں آہستہ آمین کہنا ثابت نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب