سوال
ایک شخص نمازِ تسبیح باجماعت ادا کرنے پر زور دیتا ہے اور اس کے جواز کی دلیل یہ دیتا ہے کہ چونکہ یہ بھی دیگر نفل نمازوں کی طرح ایک نفلی عبادت ہے، لہٰذا اس کی جماعت بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح نمازِ تراویح باجماعت جائز ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بارے میں دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں تاکہ تشفی ہو، اور آپ عنداللہ ماجور ہوں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازِ تسبیح کی مشروعیت احادیثِ نبویہ سے ثابت ہے، یعنی اس نماز کی اصل اور اس کا پڑھنا رسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔ تاہم، نمازِ تسبیح باجماعت ادا کرنا نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
◈ اس کے برخلاف، صلاۃ اللیل (تہجد) اور قیامِ رمضان (تراویح) کی جماعت کا ثبوت خود رسول اللہﷺ کی سنت سے موجود ہے۔
◈ لہٰذا ان عبادات کی جماعت کو دلیل بنا کر نمازِ تسبیح کی جماعت پر قیاس کرنا درست نہیں۔
◈ اس استدلال کی نوعیت ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی شخص ظہر کی پہلی یا پچھلی سنتوں کی جماعت کا جواز صلاۃ اللیل یا قیام رمضان سے نکالے، حالانکہ ایسی سنتیں انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں اور ان کی جماعت کا کوئی ثبوت رسول اللہﷺ سے نہیں ملتا۔
خلاصہ
نمازِ تسبیح پڑھنا سنت سے ثابت ہے، مگر اس کی جماعت کرنا نبی اکرمﷺ سے ثابت نہیں، اس لیے اس عمل کو مشروع کہنا درست نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب