نمازوں کی ترتیب کا شرعی حکم اور مغرب قضاء ہونے کی صورت
ماخوذ : احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 109

نمازوں کی ترتیب: ضروری یا نہیں؟ مکمل وضاحت

سوال:

کیا نمازوں کو ترتیب سے ادا کرنا ضروری ہے؟ اگر ترتیب ضروری ہے تو پھر ایسی صورت میں جب مغرب کی نماز رہ جائے اور مسجد میں داخل ہونے پر عشاء کی جماعت جاری ہو، تو کیا کیا جائے؟ نیز، اگر ترتیب ضروری ہے تو برائے مہربانی دلائل سے وضاحت فرمائیں۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازیں روزانہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہیں۔ اگر آپ خود غور کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آپ ان نمازوں کو ہمیشہ ترتیب سے ہی پڑھتے ہیں، نہ کہ بے ترتیب۔

یہ بات مشہور اور مسلمہ ہے کہ جو نماز قضاء ہو جائے، اس کی قضاء اسی طرح کی جاتی ہے جیسے کہ اصل نماز ادا کی جاتی ہے، الاَّ کہ اس کی کوئی شرعی دلیل موجود ہو۔

غزوہ خندق سے دلیل:

غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی چند نمازیں قضاء ہو گئی تھیں، تو آپ ﷺ نے ان نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ہی ادا فرمایا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نمازوں کی ترتیب کا لحاظ رکھنا سنتِ نبوی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔

مغرب کی نماز قضاء ہونے کی صورت میں کیا کرے؟

اگر کسی شخص کی مغرب کی نماز رہ جائے اور وہ جب مسجد پہنچے تو وہاں عشاء کی جماعت کھڑی ہو چکی ہو، تو ایسی صورت میں کیا طریقہ اپنایا جائے؟ اس سلسلے میں درج ذیل طریقہ کار بیان کیا گیا ہے:

◈ وہ شخص عشاء کی جماعت میں شامل ہو جائے۔
◈ جماعت کے ساتھ شامل ہونے پر اس کی پہلی تین رکعات فرض ہوں گی۔
◈ چوتھی رکعت اس کے لیے نفل شمار ہو گی۔
◈ اگر کوئی اس طریقہ کار سے مطمئن نہ ہو، تو وہ جماعت کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت مزید ادا کر لے۔

❀ اس طرح اس کی تین رکعت مغرب کی فرض ادا ہو جائیں گی۔
❀ اور دو رکعت نفل شمار ہوں گی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1