نقد اور ادھار قیمت میں فرق اور انعامی بانڈز کی شرعی حیثیت
ماخوذ : احکام و مسائل، باب: خرید و فروخت کے مسائل، جلد: 1، صفحہ: 371

سوال کا پس منظر

محترم استاذ گرامی!
ہمارے علاقے میلسی میں ان دنوں ایک مسئلہ مسلسل زیر بحث ہے:
کیا کسی چیز کی نقد اور ادھار قیمت میں فرق (یعنی کمی یا زیادتی) جائز ہے یا ناجائز؟
یہ سوال بار بار بحث کا باعث بنتا ہے، لیکن ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔
اس مسئلے کے حل کی غرض سے ہم نے مختلف علمائے کرام سے رجوع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

ہماری آپ سے درخواست ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں:
کیا یہ جائز ہے کہ ایک چیز کی نقد قیمت کچھ اور ہو اور ادھار قیمت کچھ اور؟

مزید برآں، 4 نومبر کے "اہل حدیث” میں عبدالرحمٰن چیمہ صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
اگر ممکن ہو تو آپ اپنی رائے میں اس مضمون کو بھی مدنظر رکھیں۔

مفتی عبدالرحمٰن صاحب کا مؤقف

13 نومبر 1994 کو میری ملاقات مفتی عبدالرحمٰن صاحب سے ہوئی۔
میں نے ان سے یہی مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے پورے یقین کے ساتھ اس کے جواز کا فتویٰ دیا۔
ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ:

  • جب نقد اور ادھار کی قیمتیں واضح طور پر خریدار کے ساتھ طے کی جائیں،
  • اور طے کرنے کے بعد کسی ایک صورت (نقد یا ادھار) پر سودا مکمل ہو جائے،
  • تو یہ ایک ہی بیع (خرید و فروخت) کہلائے گی۔

یعنی:
اگر خریدار کو کہا جائے کہ نقد پر یہ قیمت ہے اور ادھار پر یہ قیمت ہے،
پھر وہ ان دونوں میں سے کسی ایک قیمت پر خریداری طے کرے،
تو دو قیمتوں کا مسئلہ نہیں بنتا، کیونکہ سودا ایک قیمت پر مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔

لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ:

  • فروخت کنندہ (بائع) خریدار (مشتری) سے کہے کہ یہ چیز نقد اس قیمت پر ہے، اور ادھار اس قیمت پر،
  • اور خریدار قیمت طے کیے بغیر چیز اٹھا کر لے جائے،

تو ایسی صورت میں ایک چیز میں دو قیمتیں واقع ہوتی ہیں، جو جائز نہیں۔

انعامی بانڈز کا معاملہ

ایک اور مسئلہ جو زیر غور ہے، وہ انعامی بانڈز کا ہے۔
اس کی نوعیت کچھ یوں ہے:

  • ایک شخص دس ہزار روپے کے بانڈ خریدتا ہے،
  • اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے ان پر انعامات دیے جاتے ہیں،
  • یہ بانڈز خریدار جب چاہے، انہی کی قیمت پر واپس کر سکتا ہے،
  • ان کی تبدیلی (چینجنگ) بھی ممکن ہے،
  • مثلاً: بانڈز بینک میں جمع کروا کر رقم وصول کی جا سکتی ہے۔

اس تمام عمل میں:

  • خریدار کو کسی قسم کا مالی نقصان نہیں ہوتا،
  • اور نہ ہی منافع کی شرح طے کی جاتی ہے، جیسا کہ بینک میں ہوتا ہے۔

لہٰذا اس کی شرعی حیثیت کی وضاحت بھی مطلوب ہے۔

جواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

➊ نقد اور ادھار قیمت کے فرق والا معاملہ:

ایسی بیع (خرید و فروخت) جس میں:

  • نقد قیمت کم ہو اور
  • ادھار قیمت زیادہ ہو

یہ بیع ناجائز ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل مراجع کا مطالعہ کریں:

  • مولانا ابو البرکات احمد صاحب رحمہ اللہ اور حافظ عبدالسلام صاحب بھٹوی حفظہ اللہ کے مابین اس موضوع پر مکالمہ
  • مولانا ابو جابر دامانوی صاحب حفظہ اللہ کا مضمون
  • شیخ البانی حفظہ اللہ کی کتاب ارواء الغلیل میں اس موضوع پر موجود تفصیلی مقام

➋ انعامی بانڈز کا کاروبار:

یہ کاروبار بھی ناجائز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1