"نظرِ بد سے تحفظ – ضرر رساں شخص کو گھر تک محدود کرنے کا شرعی جواز”
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

ایک شخص کے متعلق مشہور ہے کہ اس کی نظر لگ جاتی ہے، تو کیا ریاست اسے پابند کر سکتی ہے کہ وہ گھر میں ہی رہے اور لوگوں سے میل ملاپ نہ کرے؟

جواب :

نظر حق ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ کسی شخص کی نظر بکثرت لگ جائے ۔ اگر کسی شخص کے متعلق یقین ہو جائے کہ اس کی نظر لگ جاتی ہے اور کوئی دوسرا حربہ کارگر نہ ہو، تو ریاست اسے پابند کر سکتی ہے کہ وہ گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ لوگوں سے ملے، تا کہ لوگ اس کی نظر سے محفوظ رہیں۔ ضرر سے بچنے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ البتہ اس صورت میں ریاست یا اہل علاقہ کے لیے ضروری ہے کہ اس شخص کے معاش کا بندوبست کرے۔
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العين حق.
”نظر برحق ہے۔ “
(صحيح البخاري : 5740 ، صحیح مسلم : 2187)
❀ اس حدیث کے تحت کئی شراح حدیث نے فرمایا:
إنه ينبغي إذا عرف أحد بالإصابة بالعين أن يجتنب ويتحرز منه وينبغي للإمام منعه من مداخلة الناس ويأمره بلزوم بيته فإن كان فقيرا رزقه ما يكفيه ويكت أذاه عن الناس فضرره أشد من ضرر آكل النوم والبصل الذى منعه النبى صلى الله عليه وسلم دخول المسجد لئلا يؤذي المسلمين ومن ضرر المجذوم الذى منعه عمر رضى الله عنه والعلماء بعده الاختلاط بالناس ومن ضرر المؤذيات من المواشي التى يؤمر بتغريبها إلى حيث لا يتأذى به أحد، وهذا الذى قاله هذا القائل صحيح متعين ولا يعرف عن غيره تصريح بخلافه والله أعلم
” جب کسی شخص کے متعلق مشہور ہو کہ اس کی نظر لگ جاتی ہے، تو اس سے اجتناب اور بچاؤ کیا جائے ، حاکم ( یا علاقہ کے سر براہ) کو چاہیے کہ اس شخص کو لوگوں کے پاس آنے سے منع کرے اور اسے گھر میں ہی رہنے کا حکم دے، اگر وہ حاجت مند ہے، تو اسے بقدر کفایت وظیفہ دے، اس کی اذیت سے لوگوں کو بچائے ۔ اس کا ضرر ( کچا) لہسن اور پیاز کھانے والے سے زیادہ ہے کہ جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد آنے سے منع فرمایا ہے، تا کہ اس ( کی بد بو) سے مسلمانوں کو تکلیف نہ ہو، اس کا ضرر اس کوڑھ والے شخص سے بھی بڑا ہے، کہ جسے سیدنا عمر نبی رضی اللہ عنہ اور بعد کے علما نے میل ملاپ سے منع کیا ہے، نیز اس کا ضرر ان نقصان دہ مویشیوں سے بھی زیادہ ہے، جنہیں ایسی جگہ کی طرف بھگانے کا حکم ہے، جہاں کسی کو اذیت نہ ہو۔ یہ ساری بات بالکل صحیح ہے، کسی اہل علم سے اس کے خلاف کوئی صراحت منقول نہیں، واللہ اعلم !“
(شرح صحيح البخاري لابن بطال : 431/9 ، إكمال المعلم للقاضي عياض : 85/7 ، المُفهِم للقرطبي : 568/5، شرح النووي : 173/14 ، واللفظ له، شرح الطيبي : 2973/9 ، التوضيح لابن مُلَقِن : 403/27 ، طرح التثريب للعراقي : 199/8)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1