سوال
کیا ہر طرح کا خون نجس ہے یا بعض اقسام پاک بھی ہوتی ہیں؟ اس مسئلے کی تفصیلی وضاحت درکار ہے۔
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خون کے متعلق شریعت کا حکم اس کی مختلف اقسام پر موقوف ہے۔ ذیل میں خون کی تمام اقسام کو ان کے حکم اور دلیل کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔ باذن اللہ وتوفیقہ۔
✦ قسم اول: حیض کا خون
حکم: نجس (پلید)
دلیل: صحیح بخاری (1؍44) میں "باب غسل دم الحیض” کے تحت:
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اگر کسی عورت کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو وہ کیا کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
"اسے کھرچے، پھر پانی سے دھوئے، پھر اس میں نماز پڑھ لے۔”
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی یہی عمل کرتی تھیں:
"ہم میں سے کوئی حائضہ جب پاک ہوتی تو خون کھرچ کر دھوتی اور کپڑے پر چھینٹے مار کر اسی میں نماز پڑھتی۔”
نتیجہ: حیض کا خون ناپاک ہے اور کپڑے پر لگنے کی صورت میں دھونا واجب ہے۔
✦ قسم دوم: دم مسفوح (بہنے والا خون)
حکم: نجس
اجماع: امام قرطبی رحمہ اللہ نے تفسیر (2؍221) میں اور امام نووی رحمہ اللہ نے شرح المہذب (2؍557) میں بیان کیا ہے کہ خون نجس ہے، اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔
ابن رشد: بدایۃ المجتہد (1؍57) میں بیان کرتے ہیں کہ خشکی کے جانور کا خون ناپاک ہے۔
✦ قسم سوم: ذبح شدہ حلال جانور کا بہتا ہوا خون
● پہلا قول: پاک ہے
دلیل:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نحر کیے گئے اونٹ کے خون اور گوبر سے لت پت ہو کر جماعت سے نماز پڑھی، وضو نہیں کیا۔ (مصنف عبدالرزاق 1؍125، ابن ابی شیبہ 1؍392، طبرانی کبیر 9؍284 – سند صحیح)
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا قول:
"مجھے پرواہ نہیں کہ اونٹ ذبح کرتے وقت خون اور گوبر میں لت پت ہو جاؤں اور پھر نماز پڑھوں۔” (سنَد ضعیف)
استدلال: براءت الذمہ اصل ہے جب تک نص موجود نہ ہو۔
● دوسرا قول: نجس ہے
دلیل:
﴿قُل لا أَجِدُ فى ما أوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلىٰ طاعِمٍ يَطعَمُهُ إِلّا أَن يَكونَ مَيتَةً أَو دَمًا مَسفوحًا أَو لَحمَ خِنزيرٍ فَإِنَّهُ رِجسٌ﴾
[الأنعام: 145]
استدلال کی وضاحت:
"فَإِنَّهُ رِجسٌ” کا مرجع صرف "لحم خنزیر” نہیں بلکہ تینوں اشیاء (مردار، بہتا خون، خنزیر کا گوشت) ہیں۔ اس کے مطابق تینوں ناپاک ہیں۔
✦ قسم چہارم: انسان کا خون (زخم سے نکلنے والا)
● پہلا قول: نجس
دلیل:
نبی ﷺ کو احد کے دن زخم آیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خون دھویا، علی رضی اللہ عنہ پانی بہاتے رہے (صحیح مسلم 2؍107، بخاری 2؍584)
جواب:
یہ دھونا نجاست کی وجہ سے نہیں، صفائی یا علاج کی غرض سے تھا۔
محض فعل سے وجوب ثابت نہیں ہوتا۔
حیض کے خون پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔
● دوسرا قول: پاک
دلیل:
حدیث ذات الرقاع: جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے زخمی حالت میں نماز مکمل کی اور اطلاع بعد میں دی (بخاری 1؍29، ابو داؤد، احمد)
آثار صحابہ:
عمر رضی اللہ عنہ زخمی حالت میں نماز پڑھتے رہے۔
ابن عمر، ابن ابی اوفی، حسن رحمہم اللہ کے اقوال کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
جابر رضی اللہ عنہ نے ناک سے خون نکالا، مٹی میں ملایا اور نماز پڑھی (ابن ابی شیبہ 1381)
جواب:
قلیل و کثیر خون کی تفریق کا کوئی قطعی اصول نہیں۔
ناپاکی پر دلیل واضح ہونی چاہیے۔
بہتر یہ ہے کہ خون کو دھو لینا افضل ہے جیسا کہ نبی ﷺ کی حدیث:
"وہ چیز چھوڑ دو جو شک میں ڈالے اور وہ لے لو جو شک میں نہ ڈالے۔”
✦ قسم پنجم: مچھلی کا خون
حکم: پاک
دلیل: مردہ مچھلی پاک ہے، تو اس کا خون بھی پاک ہوگا۔ نبی ﷺ کا فرمان:
"جو چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے، اسے کھاؤ۔”
✦ قسم ششم: مکھی، مچھر، شہد کی مکھی وغیرہ کا خون
حکم: پاک
دلیل:
یہ اگر مشروب میں گر جائیں تو نبی ﷺ نے ان کو ڈبونے کا حکم دیا۔
اگر ان کا خون نجس ہوتا تو حکم مختلف ہوتا۔
✦ قسم ہفتم: ذبح شدہ جانور کے جسم میں باقی رہ جانے والا خون
حکم: پاک
دلیل:
دل اور تلی کا خون اس میں شامل ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"ہم گوشت کھاتے تھے اور خون کی لکیریں ہنڈیا میں نمایاں ہوتی تھیں۔”
شیخ الاسلام ابن تیمیہ:
"ذبیحہ کا گوشت دھونا بدعت ہے۔ صحابہ بغیر دھوئے پکا کر کھاتے تھے، اور خون کی لکیریں دیکھتے تھے۔ اس خون کے نجس نہ ہونے پر اجماع ہے۔” (فتاویٰ 21؍522)
خلاصہ:
خون کی بعض اقسام (جیسے حیض کا خون، بہتا ہوا خون) شریعت میں نجس قرار دی گئی ہیں، جبکہ دیگر اقسام (انسانی زخم کا خون، مچھلی کا خون، مکھی وغیرہ کا خون، ذبح شدہ جانور کے جسم میں بچا خون) پاک ہیں۔ اس تفریق کے لیے صحیح دلائل اور آثار کی مدد سے فیصلہ کیا گیا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب