میں کیسے شیطان سے سارا دن اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہوں؟

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

331۔ میں کیسے شیطان سے سارا دن اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہوں ؟
جواب :
سیدنا عبدالله بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے (انھوں نے کہا) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو کہتے :
« أعوذ بالله العظيم و بوجهه الكريم و سلطانه القديم من الشيطان الرجيم »
”میں پناہ مانگتا ہوں عظمت والے اللہ کے ساتھ اور اس کے عزت والے چہرے کے ساتھ اور اس کی قدیم بادشاہت کے ساتھ، شیطان مردود سے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 466]
پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
«فإذا قال ذلك قال الشيطان: حفظ مني سائر اليوم »
”جب بندہ یہ بات کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے: وہ مجھ سے بقیہ دن محفوظ ہو گیا۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 2882 صحيح ابن حبان، رقم الحديث 1726]
علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [صحيح الترغيب، رقم الحديث 1467]
——————

332۔ علاج بالقرآن کی کیا خوبیاں ہیں ؟
جواب :
➊ شفا دینے والے اللہ کے ساتھ مریض کا ربط ہوتا ہے، پھر اسے اطاعت کے کاموں پر پیشگی کا حکم دیا جاتا ہے۔
➋ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔
➌ اللہ کا قرب پا کر تمام لوگوں سے مقابلہ، پس کتنے ہی اسلام کے دعویدار ایسے ہیں، جو اسلام کے بارے کسی چیز کا علم ہی نہیں رکھتے۔
——————

333۔ معالجین کی چند عام غلطیاں کیا ہیں ؟
جواب :
➊ عورت پر محرم کے بغیر قرآن پڑھنا۔
➋ مریض کے جسم پر قرآن لکھنا، مثلاً حرف مریض کی پیشانی پر لکھنا یا کٰھیٰعص کو کئی حرفوں کی شکل میں انگلیوں پر لکھنا۔
➌ کسی کپڑے کے ٹکڑے پر قرآن لکھنا، پھر اسے مریض کے سونگنے کے لیے جلانا۔
➍ دوران علاج دھونی دینے والے آلے کو کھلا چھوڑ دینا۔
➎ مریض کا اپنے ہاتھ کو کشف کے لیے اٹھانا اور اوپر نیچےکرنا کہ اگر اس کے ساتھ کوئی چیز ہو تو یہ اٹھ جائے گا اور اگر اس کے ساتھ ایسے ہو تو گر جائے گا وغیرہ۔
➏ گھاس کے تنکوں کے بارے میں کہنا کہ ان کو پکڑ یا ان کو چھوڑ۔
➐ جن کے ساتھ ایسی لمبی گفتگو کرنا جس کا کوئی فائدہ ہی نہ ہو۔——————

334۔ وہ جادو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے اثر انداز ہوا ؟
جواب :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے جانے والے جادو کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی ازواج کے ساتھ تعلق کے معاملے میں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے ہیں یا نہیں۔
——————

335۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیسے ہو گیا، جب کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ؟
جواب :
اس کی درج ذیل تین وجوہات ہیں:
➊ یہ معاملہ امت کو یہ سکھانے کے لیے ہوا کہ جادو کا وجود ہے۔
➋ جادو اللہ کے حکم سے اذیت کا باعث بنتا ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں۔
——————

336۔ کیا جس مدت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر رہا، اس میں وحی کا نزول ہوا تھا ؟
جواب :
جی نہیں،
اللہ کے فضل سے اس مدت میں مطلقاً وحی کا نزول نہیں ہوا۔
——————

337۔ معالجین اکثر خطا کر جاتے ہیں، کیا ہمارا اس معاملے کو چھوڑ دینا افضل ہے ؟
جواب :
جی نہیں،
خطاؤں کا بھی علاج ہے، ہم ان کے لیے ایک طریقہ پیش کرتے ہیں جس سے وہ نہ ہٹیں۔ رہی بات غلطیوں کی، وہ تو ہر ایک سے ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر غلطی کرتے ہیں اور وہ طب میں خطرناک نتائج سامنے لانے کا باعث بن جاتے ہیں تو کیا ہم علاج کروانا اور ادویات کا استعمال چھوڑ دیں؟ انجینیر غلطی کرتے ہیں تو کیا ہم عمارتیں بنانا چھوڑ دیں؟ حل تو یہ ہے کہ کوتاہی کرنے والے کا حساب لیں اور اس کو سزا دیں۔
مگر جب ہم اس باب کو بند کریں گے تو مجبوراً ہمیں جادوگروں اور شعبده بازوں کی طرف جانا پڑے گا، بلکہ غیر مسلموں کی طرف۔ پس اسلام ہی سب سے افضل دین ہے۔
——————

338۔ کیا سینگی طریقہ علاج ہے اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعریف کی ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
وہ تو بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
« الشفاء فى ثلاث: شربة عسل، وشرطة محجم، وكية بنار، وأنهى أمتي عن الكي»
”شفا تین چیزوں میں ہے۔ شہد پینے میں، عمده سینگی میں اور آگ کے ساتھ داغنے میں اور میں اپنی امت کو (آگ کے ساتھ) داغنے سے منع کرتا ہوں۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5356]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا :
«ما مررت ليلة أسري بي بملإ من الملائكة إلا قالوا: يا محمد! مر أمتك بالحجامة »
”جس رات مجھے اسرا و معراج کرایا گیا تو میں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرا، اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی امت کو سینگی کا حکم دو۔“ امام ترمذی نے اسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
——————

339۔ اس آیت « ﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ » اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو والی حدیث میں تطبیق کیا ہے ؟
جواب :
اس آیت اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت کا نزول جادو سے شفا پانے کے بعد ہوا تھا۔
——————

340۔ کیا شیطان قبر میں بھی ابن آدم کے پاس آتا ہے ؟
جواب :
سعید بن مسیب سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا، جب انھوں نے میت کو لحد میں رکھا تو کہا :
«باسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله، »
پھر جب لحد پر اینٹیں درست کیں تو کہنے لگے :
«اللهم أجرها من الشيطان ومن عذاب القبر، اللهم جاف الأرض عن جنبيها، وصعد روحها ولقها منك رضوانا. قلت: يا ابن عمر أشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم أم قلته برأيك؟ قال إي إذن لقادر على القول، بل شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم .»
”اے اللہ! اسے شیطان سے اور عذاب قبر سے بچا۔ اے اللہ! زمین کو اس کے پہلووں سے دور رکھ، اس کی روح کو اوپر رکھا اور اسے اپنی رضا مندی کی تلقین کر۔ میں (سعید بن مسیب) نے کہا: ابن عمر! کیا یہ چیز تم اپنی رائے سے کہہ رہے ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھی ہے؟ انھوں نے کہا: پھر تو میں (ہر طرح) کی بات پر قادر ہوں، بلکہ میں نے یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھی ہے۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 323 سنن البيهقي 55/4]
——————

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply