میت کے گھر والوں کے کھانے کی دعوت سے متعلق 3 اہم شرعی رہنما اصول
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الجنائز، صفحہ 511

میت کے گھر والوں کا لوگوں کو کھانا کھلانا: شرعی حیثیت

سوال

ایسے گھروں میں جہاں کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے، وہاں میت کے دفن کے بعد گھر والے کھانا تیار کرتے ہیں اور امیر و غریب سب کو کھلاتے ہیں۔ اس عمل کو "خیرات” کہا جاتا ہے اور امید رکھی جاتی ہے کہ اس سے ثواب حاصل ہوگا۔ دریافت یہ ہے کہ شریعت میں اس کھانے کی حیثیت کیا ہے؟
(ایک سائل)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کے گھر والوں کے ہاتھوں کھانے کی دعوت دینا

◈ ایسا کھانا کھلانا بدعت ہے اور کتاب و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔
◈ بلکہ نبی کریم ﷺ کا عمل اس کے برعکس ہے۔ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے انتقال پر نبی ﷺ نے فرمایا:

آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایسی بات (مصیبت) آ گئی ہے جس نے انھیں مشغول کر دیا ہے۔
(سنن ابی داود: 3132، وسندہ حسن)

اس حدیث کی روشنی میں حاصل شدہ ہدایت

◈ میت کے گھر والوں کا دوسرے لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنا جائز نہیں۔
◈ بلکہ اہل محلہ یا رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہ میت کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کر کے بھیجیں تاکہ وہ ایام غم میں کھانا پکانے کی مشقت سے آزاد رہیں۔

ایصال ثواب کا طریقہ

◈ جو کھانے کی دعوت آج کل مروج ہے، اس کا ایصال ثواب سے کوئی تعلق نہیں۔
◈ میت کی وفات کے تین دن کے بعد یا کسی اور مناسب وقت پر میت کی طرف سے فقراء و مساکین میں ایصال ثواب کے طور پر کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔
(الحدیث: 45)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1