میت، سوگ اور صبر سے متعلق 10 صحیح احادیث

میت کا سوگ اور رونے کے اسلامی احکام

ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا واقعہ

ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہوا۔

تین دن بعد انہوں نے خوشبو منگوائی اور اپنے جسم پر لگائی۔

انہوں نے فرمایا:

"مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو عورت اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو، اس کے لیے حلال نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے شوہر کے جس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے۔”

(بخاری: الجنائز، باب: حد المرأۃ علی غیر زوجھا: ۲۸۲۱، مسلم: ۷۸۴۱)

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا عمل

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے کا انتقال ہوا۔

تیسرے دن انہوں نے زردی منگوا کر اپنے بدن پر لگائی اور فرمایا:

"ہمارے لیے شوہر کے علاوہ کسی اور (کی وفات) پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا ممنوع ہے۔”

(بخاری: ۹۷۲۱)

میت پر رونا

آنکھوں سے آنسو بہنا

میت کو دیکھ کر اگر آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ جائیں تو یہ جائز ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن عبادہ کی بے ہوشی پر رونا شروع کیا، صحابہ بھی روئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ آنکھ کے رونے اور دل کے پریشان ہونے کی وجہ سے عذاب نہیں دیتا، بلکہ زبان کے چلانے اور واویلا کرنے سے عذاب دیتا ہے۔”

(بخاری، الجنائز، باب البکاء عند المریض: ۴۰۳۱، مسلم: ۴۲۹)

حقیقی صبر کی تعریف

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"صبر وہی معتبر ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو۔”

(بخاری: ۲۰۳۱، مسلم، الجنائز، باب فی الصبر علی المصیبۃ عند الصدمۃ الاولی: ۶۲۹)

مطلب یہ کہ بین کرنے کے بعد صبر کرنا صبر نہیں، اصل صبر مصیبت کے وقت تسلیم و رضا کا مظاہرہ ہے۔

نوحہ اور بین کی ممانعت

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وہ ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکارے۔”

(بخاری، الجنائز، باب لیس منا من شق الجیوب: ۴۹۲۱، مسلم، الایمان باب تحریم ضرب الخدود وشق الجیوب: ۳۰۱)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"میں اس شخص سے بیزار ہوں جو (موت کی مصیبت میں) سر کے بال نوچے، چلا کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑے۔”

(بخاری: الجنائز، باب: ما ینھی من الحلق عند المصیبۃ: ۶۹۲۱، مسلم: ۴۰۱)

صبر پر اللہ کا انعام

جنت کی بشارت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے مومن بندے کے لیے جنت ہے جس کے پیارے کو میں فوت کرتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے۔”

(بخاری، الرقاق باب العمل الذی یبتغی بہ وجہ اللہ، حدیث ۴۲۴۶)

جاہلیت کی چار رسومات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنہیں میری امت کے لوگ بھی کریں گے:

➊ اپنے حسب پر فخر کرنا
➋ دوسرے کے نسب پر طعن کرنا
➌ ستاروں کے ذریعے پانی طلب کرنا
➍ نوحہ کرنا

اگر نوحہ کرنے والی عورت مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پر گندھک کا کرتا اور خارش کی اوڑھنی ہو گی۔”

(مسلم، الجنائز، باب: التشدید فی النیاحۃ: ۴۳۹)

علم نجوم اور ستاروں کا بارش سے تعلق جوڑنا بھی جاہلیت کی خرافات میں شامل ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غم

بیٹے سیدنا ابراہیم کی وفات

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے، مگر ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اللہ کی قسم اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں۔”

(بخاری: الجنائز، باب: قول النبی: ’’انا بک لمحزونون‘‘: ۳۰۳۱، مسلم: الفضائل، باب: رحمتہ الصبیان والعیال: ۵۱۳۲)

نواسے کی وفات پر آنسو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کی وفات پر آنکھوں سے آنسو نکلے۔

سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"یہ وہ رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے، اور اللہ اپنے بندوں میں صرف رحم کرنے والوں پر رحم کرتا ہے۔”

(بخاری، الجنائز، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ: ۴۸۲۱، مسلم، الجنائز، باب البکاء علی المیت: ۳۲۹)

بچوں کی موت پر والدین کو بشارت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جس عورت کے تین بچے مر جائیں اور وہ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرے، وہ بچے جہنم سے آڑ بن جائیں گے۔”

ایک عورت نے پوچھا: اگر دو بچے ہوں؟

فرمایا:

"دو بچے بھی۔”

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے مراد نابالغ بچے ہیں۔

(بخاری، العلم باب ھل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم: ۱۰۱، مسلم : ۳۳۶۲، ۴۳۶۲)

بچوں کی شفاعت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وہ (بچے) اپنے ماں باپ سے ملیں گے، ان کا کپڑا یا ہاتھ پکڑیں گے، اور نہ چھوڑیں گے جب تک اللہ ان کو اور ان کے والدین کو جنت میں داخل نہ کر دے۔”

(مسلم: کتاب البر والصلۃ، باب فضل من یموت لہ ولد فیحتسبہ: ۵۳۶۲)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ ان بچوں پر اپنی رحمت اور فضل کے سبب ان کے والد کو جنت میں داخل کرے گا۔”

(بخاری، الجنائز، باب فضل من مات لہ ولد فاحتسب: ۸۴۲۱)

بشرطیکہ والد کا عقیدہ درست ہو۔ (ع، ر)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1