مونچھوں سے متعلق 8 احکام صحیح احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 422

سوال

مونچھوں کے بارے میں سنت کیا ہے؟ مونڈنا، نوچنا یا کترنا؟ ہمیں فتویٰ دیں، اللہ آپ کو اجر دے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیث مبارکہ میں مونچھوں سے متعلق مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن میں درج ذیل شامل ہیں:

إحفاء
جز
قص
الأخذ
نهك
حلق

سنت نبوی ﷺ کی روشنی میں مونچھوں کے متعلق احادیث

بخاری (2؍875) کی حدیث
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
«انْهَكُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَىٰ»
’’مو نچھوں کو ختم کرو اور داڑھیوں کو چھوڑ دو۔‘‘

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت:
«خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَوْفِرُوا اللِّحَىٰ وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ»
’’مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں اچھی طرح مونڈو۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
(مسلم 1؍29):
’’فطری خصائل پانچ ہیں: ختنہ، استنجا کے لئے پانی کا استعمال، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، اور مونچھیں کترنا۔‘‘

مسلم کی حدیث:
’’مونچھیں کاٹو، داڑھیاں لٹکاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘

مغیر بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
نبی ﷺ نے مسواک رکھ کر مونچھیں قینچی سے کاٹنے کی ہدایت فرمائی۔
(ترمذی 2؍5، ابوداؤد 1؍38 رقم 187، طحاوی 2؍397، مشکاة 2؍367)

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت:
«مَنْ لَمْ يَأْخُذْ مِنْ شَارِبِهِ فَلَيْسَ مِنَّا»
(احمد، نسائی، ترمذی)
’’جس نے اپنی مونچھوں میں سے نہ لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘

"حلق” کا ذکر

لفظ "حلق” (مونڈنا) حدیث میں صراحتاً نہیں آیا۔
بعض علماء نے "إحفاء” کو "حلق” (مونڈنا) کے معنی میں لیا ہے۔

اہل علم کا اختلاف

➊ وہ علماء جو احفاء (مکمل صاف کرنا) کو افضل سمجھتے ہیں:

ان کے دلائل:

"احفاء” کا لفظ صحیحین میں آیا ہے۔
◈ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مونچھیں مکمل صاف کرتے تھے۔

طحاوی (2؍308) کی روایت:
اسمٰعیل بن خالد فرماتے ہیں: میں نے انس بن مالک اور واثلہ بن الاسقع کو دیکھا، وہ مونچھیں صاف کرتے تھے اور داڑھیاں معاف کرتے تھے۔

مزید صحابہ جن سے صاف کرنے کا عمل منقول ہے:

◈ عبداللہ بن عمر
◈ ابو سعید خدری
◈ ابو اسید الساعدی
◈ رافع بن خدیج
◈ جابر بن عبد اللہ
◈ ابو ہریرہ
◈ انس بن مالک
◈ سلمہ بن اکوع

ابن عمر رضی اللہ عنہ مونچھیں اس قدر صاف کرتے کہ جلد کی سفیدی ظاہر ہو جاتی۔

➋ وہ علماء جو کترنے کو افضل کہتے ہیں:

ان کے دلائل:

◈ کتریں والی احادیث زیادہ اور صحیح ہیں۔
◈ مغیر بن شعبہ کی حدیث میں صراحت سے قینچی سے مونچھوں کو مسواک کے ساتھ کترنے کا ذکر ہے۔

بزار نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی: نبی ﷺ نے ایک شخص کی بڑھی ہوئی مونچھیں دیکھیں، مسواک کے کنارے رکھ کر جو بال آگے بڑھ رہے تھے، قینچی سے کتر دیے۔
(تحفۃ الاحوذی 4؍11)

طبرانی الکبیر (1؍4) کی روایت:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مونچھوں کو تاؤ دیتے اور پھونک مارتے۔

شرجیل بن مسلم خولانی کی روایت:
پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت تھی کہ وہ مونچھیں کترتے تھے:

◈ ابو امامہ باہلی
◈ عبد اللہ بن بسر
◈ عتبہ بن عبد السلمی
◈ حجاج بن عامر اشمالی
◈ مقدام بن معدیکرب

وہ صرف ہونٹ کے کناروں پر بال کترتے تھے، جڑ سے نہیں کاٹتے۔

امام نووی رحمہ اللہ:
کترنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ ہونٹ کے کنارے سے باہر آنے والے بال کاٹے جائیں، نہ کہ جڑ سے۔

ابن سعد (1؍433، 449) کے مطابق ایک حجام نے نبی ﷺ کی مونچھیں کتریں۔

امام مالک رحمہ اللہ جڑ سے مونڈنے کو "مثلہ” (چہرہ بگاڑنے) قرار دیتے تھے۔

➌ دونوں عمل جائز ہیں مگر کترنا افضل

امام بیہقی رحمہ اللہ کے مطابق امام مالک نے "احفاء” کو کترنے پر محمول کیا ہے، مونڈنے پر نہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ:
طبرانی کا قول راجح ہے کہ دونوں طریقے (احفاء اور قص) احادیث سے ثابت ہیں، اور قص (کترنا) کو اختیار کرنے کی طرف اشارہ کیا۔

امام طحاوی رحمہ اللہ:
معا فی الآثار (2؍208) میں فرمایا کہ جو چاہے اختیار کرے، دونوں سنت سے ثابت ہیں۔

امام مالک کا قول:
مونچھیں مونڈنے والے کے بارے میں فرمایا:
"میرے خیال میں اسے سخت سزا دینی چاہیے۔”
مونچھیں صاف کرنے کو بدعت قرار دیا۔
(فتح الباری 1؍285–286)

➍ فتاویٰ صالح العثیمین:

سنت کے مطابق افضل مونچھوں کا کترنا ہے:

◈ ہونٹوں کے قریب بال کاٹے جائیں کہ ہونٹ ظاہر ہو جائیں۔
◈ یا ساری مونچھیں کتری جائیں حتیٰ کہ صاف ہو جائیں۔
◈ مونڈنا سنت نہیں، بلکہ بدعت ہے۔

➎ مشتبہ روایت کا جواب

بعض نسخوں میں "حلق الشارب” کا لفظ آیا ہے، مگر سنن نسائی (صغریٰ و کبریٰ) کے مطبوعہ نسخوں میں یہ موجود نہیں۔

حافظ ابن حجر نے اسے ذکر کیا اور اسے شاذ قرار دیا۔
(فتح الباری 1؍285)

شیخ البانی نے "ارواء الغلیل” (1؍112، رقم 73) میں اس کی طرف اشارہ کیا۔

نتیجہ

مو نچھوں کو کترنا افضل ہے۔

صاف کرنا (احفاء) بھی جائز ہے۔

مونڈنا بدعت ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم نے وضاحت فرمائی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1