منی، مذی اور ودی سے متعلق 8 شرعی احکام صحیح دلائل کی روشنی میں
 ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 316

منی، مذی اور ودی کے احکام

سوال 

کیا منی، مذی اور ودی ایک جیسی نجاستیں ہیں؟

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منی کا حکم

علما کا اختلاف:

علماء کے درمیان منی کے پاک یا نجس ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ منی پاک ہے، لیکن نظافت کے لحاظ سے اسے دھونا یا کھرچنا بہتر ہے۔ یہ ناک یا تھوک کے مشابہ ہے۔

دلائل:

➊ حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا:
"یقیناً وہ نبی ﷺ کے کپڑے سے منی کھرچا کرتی تھیں، پھر وہ اس میں نماز پڑھتے تھے”
(صحیح مسلم 1؍14)
اگر منی نجس ہوتی تو کھرچنا کافی نہ ہوتا، کیونکہ نجاست کھرچنے سے مکمل ختم نہیں ہوتی۔

➋ مسند احمد کی روایت:
"نبی ﷺ گھاس کے تنکے کے ساتھ منی اپنے کپڑے سے ہٹاتے تھے، پھر اسی کپڑے میں نماز پڑھتے تھے”
(مسند احمد 6؍243، سند صحیح، بیہقی 2؍418، الارواء 1؍197)
یہ نجس اشیاء کا نہیں بلکہ فطری نظافت کا معاملہ ہے۔

➌ روایتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ:
"منی، ناک، تھوک، اور رینٹھ کے مشابہ ہے۔ اسے کپڑے یا تنکے سے ہٹا لینا چاہیے”
(دار قطنی 1؍124، بیہقی 2؍418)
یہ حدیث موقوفاً صحیح ہے اور مرفوعاً بھی کئی محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے
(التعلیق المغنی، الریہ 1؍210، المجمع 1؍279)

➍ اثر عمر رضی اللہ عنہ:
"اگر منی تر ہو تو دھو لے، خشک ہو تو کھرچ لے، اور اگر پتہ نہ چلے تو چھینٹے مار لے”
(ابن ابی شیبہ 1؍75)
ابن جوزی: یہ حکم گھن کی وجہ سے ہے، نجاست کی وجہ سے نہیں
(نصب الرایہ 1؍210)

➎ روایت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ:
"منی تر ہو تو دھو لیتے، خشک ہو تو کھرچ لیتے، پھر اسی کپڑے میں نماز پڑھتے”
(بیہقی 2؍218، ابن ابی شیبہ 1؍87)
بیہقی: یہ صفائی کی غرض سے ہوتا ہے، نہ کہ نجاست کی وجہ سے
(بیہقی 1؍419)

➏ اصل میں طہارت:
تمام چیزوں کی اصل حالت طہارت ہے۔ منی کو ناپاک قرار دینے کے لیے کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔
منی کا جسم یا کپڑوں سے لگ جانا عمومی اور اکثر غیر اختیاری ہوتا ہے، جس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔
فتاویٰ ابن تیمیہ 21؍591

➐ نبی ﷺ کا سکوت:
اگر منی نجس ہوتی تو نبی کریم ﷺ ضرور اس کا ازالہ واجب قرار دیتے۔
چونکہ ایسا کوئی قول یا فعل منقول نہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منی پاک ہے۔
ابن حزم، المحلیٰ 1؍124، مسلہ نمبر 131

➑ منی کی طبعی خصوصیات:
منی کا رنگ سفید اور گاڑھا ہوتا ہے، بو کھجور کے خوشے جیسی ہوتی ہے۔
انسان کی تخلیق اسی سے ہوئی ہے، اور یہ غذا کے اجزاء سے وجود پاتی ہے۔
یہ فضلات سے مختلف اور برتر ہے۔

✿ ابن عقیل کا مناظرہ:
“میں اسے پاک سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے انسان پیدا ہوتا ہے، جبکہ مخالف اسے نجس کہتا ہے۔”

اقوالِ ائمہ و محدثین

✿ ابن قدامہ:
"منی پاک ہے، امام احمد، سعد بن ابی وقاص، ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم کا یہی قول ہے”
(المغنی 1؍771)
اگر کوئی ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لے جس پر منی لگی ہو، تو نماز کا اعادہ ضروری نہیں۔

✿ حافظ ابن حجر:
"امام بخاری نے باب غسل المنی کے تحت کوئی حدیث نقل نہیں کی، بلکہ اشارہ پر اکتفا کیا”
(فتح الباری 1؍265)

تطبیق:

اگر منی پاک ہو، تو دھونا نظافت کی نیت سے مستحب ہے، واجب نہیں۔
اگر اسے نجس مانا جائے، تو تر حالت میں دھونا اور خشک میں کھرچنا ضروری ہو گا۔
یہ رائے حنفیہ کی ہے۔

راجح قول: منی پاک ہے، اور دھونا صرف نظافت کے لیے ہے۔

مذی کا حکم

مذی کیا ہے؟

یہ ایک پتلا مادہ ہے جو شہوت کے وقت نکلتا ہے۔

✿ حدیث علی رضی اللہ عنہ:
"ذکر کو دھوئے اور وضوء کرے”
(بخاری 1؍41، مسلم 1؍143، مشکوٰۃ 1؍40، ابو داؤد رقم 208)
"اپنے ذکر اور خصیوں کو دھوئے”
(ابو داؤد 208، سند صحیح)

✿ حدیث عبداللہ بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ:
"یہ مذی ہے، اس کے نکلنے پر فرج اور خصیوں کو دھو لے، اور نماز کے لیے وضوء کرے”
(ابو داؤد برقم 211، سند صحیح)

خلاصہ:
مذی پلید ہے۔
ذکر اور خصیوں کو دھونا واجب ہے، خواہ مذی ان پر نہ بھی لگی ہو۔
کپڑے پر مذی لگنے کی صورت میں صرف چھینٹے مارنا کافی ہے، دھونا ضروری نہیں۔

ودی کا حکم

ودی کا حکم ہر لحاظ سے پیشاب جیسا ہے۔
اس کے نکلنے پر وضوء فرض ہے۔
مجموعہ فتاویٰ ابن عثیمین 4؍222

منی، مذی اور ودی کے درمیان فرق:

مادہ پاک/ناپاک عمل
منی پاک صرف نظافت کے لیے دھونا جائز، لازم نہیں
مذی ناپاک ذکر اور خصیوں کا دھونا، وضوء لازم، کپڑے پر چھینٹے کافی
ودی ناپاک پیشاب کی طرح ہے، وضوء لازم

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1