"مناظرہ: حق کے اظہار کا شرعی اور مسنون طریقہ”
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

مناظرہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جواب :

مناظرہ دعوت کا مشروع طریقہ ہے۔ کتاب وسنت میں اس کا ثبوت ہے، انبیائے کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کی زندگیوں میں اس کا ثبوت ہے۔ ہر دور کے اہل حق اور اہل باطل کے مناظرے ہوتے رہے ہیں۔ مناظرہ احقاق حق اور ابطال باطل کا مؤثر طریقہ رہا ہے۔
مناظرہ مخالف سے حق کے اظہار اور ثبوت کے لیے بحث ومباحثہ کرنے کو کہتے ہیں۔ اس میں مقصد دوسرے کو بیچ کرنا نہیں ہوتا ، بلکہ حق کا غلبہ اور مخالفین کی اصلاح ہوتی ہے۔
مناظرہ غیر مسلموں سے بھی ہوسکتا ہے اور مسلمانوں سے بھی کیا جاسکتا ہے، عقائد پر بھی کیا جاسکتا ہے اور فروعی مسائل میں بھی۔
مناظرہ میں دلائل و براہین پیش کی جاتی ہیں ، گالم گلوچ ، طعن و تشنیع اور فتوی بازی کو مناظرہ نہیں کہتے ، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾
(النحل : 125)
” ان سے احسن طریقہ سے مجادلہ کیجئے۔“
علامه سمرقندی حنفی رحمہ اللہ (373ھ) فرماتے ہیں:
في الآية دليل أن المناظرة والمجادلة فى العلم جائزة، إذا قصد بها إظهار الحق .
”یہ آیت دلیل ہے کہ علمی مباحث میں مناظرہ اور مجادلہ جائز ہے، جب اس کا مقصد حق کا اظہار ہو۔“
(تفسير السمرقندي : 297/2)
علامہ نسفی حنفی رحمہ اللہ (710ھ) فرماتے ہیں:
هو رد على من يأبى المناظرة فى الدين .
”یہ آیت ان کا رد کرتی ہے، جو دینی مسائل میں مناظرہ کا انکار کرتے ہیں۔“
(تفسير النسفي : 242/2)
❀ فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾
(العنكبوت : 46)
”اہل کتاب سے احسن انداز سے مجادلہ کیا کرو ۔“
❀ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احتج آدم وموسىٰ عليهما السلام عند ربهما، فحج آدم موسىٰ، قال موسىٰ: أنت آدم الذى خلقك الله بيديه ونفخ فيك من روحه، وأسجد لك ملائكته، وأسكنك فى جنته، ثم أهبطت الناس بخطيئتك إلى الأرض، فقال آدم: أنت موسىٰ الذى اصطفاك الله برسالته وبكلامه وأعطاك الألواح فيها تبيان كل شيء وقربك نجيا، فبكم وجدت الله كتب التوراة قبل أن أخلق؟ قال موسىٰ: بأربعين عاما، قال آدم: فهل وجدت فيها ﴿وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ﴾ ، قال: نعم، قال: أفتلومني علىٰ أن عملت عملا كتبه الله على أن أعمله قبل أن يخلقني بأربعين سنة؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فحج آدم موسىٰ.
”رب تعالیٰ کے پاس آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو ہوئی۔ آدم علیہ السلام دلیل میں غالب آگئے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : آپ آدم ہیں کہ جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا، آپ میں روح پھونکی ،مسجود ملائکہ بنایا اور جنت میں ٹھکانا دیا، پھر آپ نے اپنی غلطی کی وجہ سے سب کو زمین پر اتار دیا۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا : آپ موسیٰ ہیں، جنہیں اللہ نے رسالت اور کلام کے چنا ہے، آپ کو تختیاں عطا کیں کہ جن میں ہر چیز کی وضاحت ہے ، سر گوشی کے لیے اپنے قریب کیا۔ بھلا اللہ نے میری تخلیق سے کتنا پہلے تو رات لکھی تھی ؟ موسی علیہ السلام نے جواب دیا : چالیس سال پہلے ۔ سیدنا آدم علیہ السلام نے فرمایا : کیا آپ نے اس میں یہ آیت : ﴿وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ﴾ دیکھی ہے؟ فرمایا : جی ہاں، آدم علیہ السلام نے فرمایا : کیا آپ مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کر رہے ہیں کہ جو اللہ نے میری تخلیق سے چالیس سال پہلے ہی میرے متعلق لکھ دیا تھا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام دلیل میں موسی علیہ السلام پر غالب آگئے ۔“
(صحيح البخاري : 4736 ، صحيح مسلم : 2652 ، واللفظ له)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
في هذا الحديث من الفقه إثبات الحجاج والمناظرة وإباحة ذلك إذا كان طلبا للحق وظهوره .
”اس حدیث میں فقہی مسئلہ ہے کہ مناظرہ اور بحث ومباحثہ جائز ہے، اس کا جواز اس وقت ہے، جب مقصود حق کی تلاش اور اس کا غلبہ ہو۔“
(التمهيد : 14/18)
❀ حافظ عراقی رحمہ اللہ (806ھ ) بیان کرتے ہیں:
فيه إثبات المناظرة، والحجاج ولو بين الأبوين ومن هو أعلم منه فى ذلك إذا كان القصد بذلك طلب الحق وتقريره، والازدياد من العلم والله أعلم .
”اس حدیث میں مناظرہ اور بحث ومباحثہ کا ثبوت ہے، یہ باپ بیٹے کے مابین بھی ہوسکتا ہے، زیادہ علم والے کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، بشرطیکہ مقصود حق کی طلب ہو یا حق کا ثبوت فراہم کرنا ہو، یا علم میں اضافہ مقصود ہو، واللہ اعلم ! “
(طرح التثريب : 253/8)
❀ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لما توفي النبى صلى الله عليه وسلم واستخلف أبو بكر، وكفر من كفر من العرب، قال عمر : يا أبا بكر، كيف تقاتل الناس ، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا : لا إله إلا الله، فمن قال : لا إله إلا الله، فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله، قال أبو بكر : والله لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها قال عمر : فوالله ما هو إلا أن قد شرح الله صدر أبى بكر رضي الله عنه، فعرفت أنه الحق .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے ، تو عرب کے کچھ لوگ کافر (مرتد) ہو گئے ، ( تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو بکر ! آپ لوگوں سے قتال کیسے کر سکتے ہیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ” مجھے لوگوں سے تب تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں، جس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا، اس نے مجھ سے اپنا مال اور جان محفوظ کر لیا ، سوائے اس کے حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔“
سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ! میں ہر اس شخص سے قتال کروں گا، جو نماز اور زکوۃ میں فرق کرے، کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے، اللہ کی قسم ! اگر لوگ بکری کا ایک بچہ دینے سے انکار کریں کہ جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے، تو میں اسے روکنے پر بھی ان سے قتال کروں گا ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے سید نا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو شرح صدر عطا کر دیا تھا، پھر میں بھی جان گیا کہ یہی حق ہے۔“
(صحيح البخاري : 6924 ،6925)
❀ علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ (606 ھ ) فرماتے ہیں:
منها : جواز المناظرة فى الأحكام، فإن أبا بكر وعمر تناظرا وتحاجا فى هذه المسألة
”یہ روایت دلیل ہے کہ شرعی احکام میں مناظرہ جائز ہے، کیونکہ سیدنا ابوبکر اور سید نا عمر بھی رضی اللہ عنہما نے اس مسئلہ میں باہم مناظرہ اور مباحثہ کیا۔“
(شرح مسند الشافعي : 146/5، التوضيح لابن ملقن : 460/27 )

اہل علم کی آراء:

❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
فيه دليل على أن المناظرة وطلب الدليل وموقع الحجة كان قديما من لدن زمن الصحابة هلم جرا لا ينكر ذلك إلا جاهل .
”یہ حدیث دلیل ہے کہ مناظرہ کرنا، دلیل طلب کرنا اور حجت و دلیل سے استدلال کرنا بہت پہلے صحابہ کے زمانہ سے اب تک چلا آ رہا ہے، اس کا انکار کوئی جاہل ہی کر سکتا ہے۔“
( التمهيد : 151/23)
❀ نیز فرماتے ہیں:
دليل على إثبات المعرضة والمناظرة وطلب الحجة وموضع الصواب.
”یہ حدیث دلیل ہے کہ معارضہ، مناظرہ، دلیل اور درست مؤقف کی جستجو کرنا جائز ہے۔ “
(الاستذكار : 47/2)
❀ نیز فرماتے ہیں:
فيه دليل على إثبات المناظرة والمجادلة عند الخلاف فى النوازل والأحكام .
”یہ دلیل ہے کہ جدید مسائل اور شرعی احکام میں اختلاف کی صورت میں مناظرہ کرنا جائز ہے۔“
(التمهيد : 368/8)
❀ قاضی عیاض رحمہ اللہ (544ھ) فرماتے ہیں :
كله دليل على المناظرة فى العلم .
”یہ تمام نصوص دلیل ہیں کہ علم دین میں مناظرہ جائز ہے۔“
(إكمال المعلم : 540/7)
❀ حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (702ھ) فرماتے ہیں:
في الحديث دليل على جواز المناظرة فى مسائل الاجتهاد .
”یہ حدیث دلیل ہے کہ اجتہادی مسائل میں بھی مناظر ہ جائز ہے۔“
(إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام : 84/2)
❀ علامہ طیبی رحمہ اللہ (743 ھ) فرماتے ہیں :
أما المناظرة لإظهار الحق، واستكشاف الحال، واستعلام ما ليس معلوما عنده، أو تعليم غيره ما هو عنده ففرض على الكفاية .
”حق کے اظہار، کسی معاملہ کے انکشاف کسی نامعلوم بات کے متعلق آگاہی کے حصول اور دوسروں کو تعلیم دینے کی غرض سے مناظر کرنا فرض کفایہ ہے۔“ (شرح الطيبي : 648/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1