من مانے مفہوم کی دلیل لانے کی ایک ناکام کوشش
عقیدہ و نظریہ کی بنیاد: وحی یا خود ساختہ خیال؟
جو شخص قرآن و سنت کی واضح اور مضبوط دلائل کی بنیاد پر عقیدہ اور عمل اختیار کرتا ہے، وہ بصیرت کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
ایسے فرد کا نظریہ مخالف ہواؤں کا سامنا کرتے ہوئے بھی متزلزل نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس، جن لوگوں کے نظریات خود ساختہ ہوتے ہیں اور اہل علم و عقل کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے، وہ اپنی بات کو منوانے کے لیے خارجی سہاروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
مسٹر پرویز کا سہارا: مفتی محمد عبدہؒ کا نام
مسٹر پرویز نے ملائکہ کے بارے میں اپنے خود ساختہ نظریے کو عوام میں قابل قبول بنانے کے لیے مفتی محمد عبدہؒ کا سہارا لیا ہے۔
انہوں نے کہا:
”مفتى محمد عبدہ نے اپنی تفاسیر ’المنار‘ میں لکھا ہے کہ یہ امر ثابت ہے کہ کائنات کی ہر شے کے اندر ایک قوت ایسی ہے، جس پر اس چیز کا دارومدار ہے اور جس کے ساتھ اس شے کا قوام و نظام قائم ہے- جو لوگ وحی پر ایمان نہیں رکھتے وہ ان قوتوں کو طبیعی قوتیں کہتے ہیں اور شریعت کی زبان میں انہیں ملائکہ کہا جاتا ہے، لیکن انہیں ملائکہ کہیے یا کائناتی قوتیں، حقیقت ایک ہی ہے-“
(لغات القرآن: ج١/ ص٢٤٢)
اصل ماخذ: تفسیر المنار اور سیاق و سباق
تفسیر المنار میں ملائکہ کے بارے میں مختلف اقوال نقل کیے گئے ہیں۔
مذکورہ قول تفسیر المنار کے صفحہ ۲۶۸ سے لیا گیا ہے۔
مفتی محمد عبدہؒ نے یہ قول فقط مادّہ پرستوں کو مطمئن کرنے کے لیے نقل کیا تھا۔
شاگرد کا وضاحتی بیان: علامہ رشید رضاؒ
مفتی محمد عبدہؒ کے شاگردِ رشید، علامہ محمد رشید رضاؒ، جو تفسیر المنار کے مرتب ہیں، اس نظریے کے ذکر کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”أراد بہذا أن يحتج على المادّيين و يقنعہم بصحة ما جاء بہ الوحى من طريق علمہم المسلم عندہم كما صرح بہ فيما مرفى صفحة٢٦٨“ (تفسير المنار: ج١ ص٢٧٤)
یعنی: ”صفحہ ۲۶۸ پر نقل ہونے والے اقتباس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مادّہ پرست لوگوں پر حجت قائم کی جائے اور انہیں اس بارے میں مطمئن کیا جائے کہ (فرشتوں کے بارے میں) جو کچھ وحی الٰہی میں ثابت ہے، وہ ان کے تسلیم شدہ علمی طریقے کے مطابق بھی ہے۔“
مقصد تائید نہیں بلکہ قربت
اس نظریے کو ذکر کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ مفتی محمد عبدہؒ اس کی تائید کرتے ہیں، بلکہ مقصد یہ تھا کہ وحی الٰہی کو مادّہ پرستوں کے ذہن کے قریب لایا جائے۔
اگرچہ مادّہ پرست فرشتوں کے وجود کا انکار کرتے ہیں، لیکن وہ انہیں "کائناتی قوتیں” کہہ کر ماننے پر مجبور ہیں۔
مزید وضاحت: رشید رضاؒ کا تبصرہ
سید رشید رضاؒ اپنے استاد مفتی عبدہؒ کے اس اقتباس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ہذا ما كتبہ شيخنا فى توضيح كلامہ فيما يفہمہ علماء الكائنات من لفظ القوىٰ إلى ما يفہمہ علماء الشرع من لفظ الملائكة“ (تفسير المنار: ج١ ص٢٧٣)
یعنی: ”ہمارے استاد نے یہ کلام اس لیے درج کیا ہے تاکہ سائنس کے علماء فرشتوں کے لیے جو لفظ (قوتوں کا) استعمال کرتے ہیں، اسے ’ملائکہ‘ کے مفہوم کے قریب کیا جا سکے جو شریعت کے علماء کے ہاں معروف ہے۔“
مفتی محمد عبدہؒ کا سلفی عقیدہ
ملائکہ کے بارے میں مفتی محمد عبدہؒ نے اپنا سلفی عقیدہ تفسیر المنار میں آیت نمبر ۳۰ کے تحت تفصیل سے بیان کیا ہے، جسے مسٹر پرویز نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔
مفتی محمد عبدہؒ فرماتے ہیں:
”أما الملئكة فيقول السلف فیہم أنہم خلق أخبرنا اللہ تعالىٰ بوجودہم وببعض عملہم فيجب علينا الايمان بہم ولايتوقف ذلك على معرفة حقيقتہم فنفوض علمہا إلى اللہ تعالىٰ فإذ ورد أن لہم اجنحة نوٴمن بذلك ولكننا نقول أنہا ليست أجنحة من الريش ونحوہ كأجنحة الطير“ (تفسير المنار: ج١/ ص٢٥٤)
ترجمہ: ”فرشتوں کے بارے میں سلف صالحین کا عقیدہ یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے وجود اور بعض کاموں کے بارے میں خبر دی ہے، لہٰذا ہم پر ان پر ایمان لانا فرض ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ان کی حقیقت معلوم ہونے پر ہی ایمان لایا جائے۔ پس جب قرآن میں ان کے پر (أجنحة) کا ذکر آیا ہے تو ہم اسے مانتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہتے کہ وہ پرندوں کے پروں جیسے ہیں۔“
نتیجہ
غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مفتی محمد عبدہؒ نے جو تعارف فرشتوں کا پیش کیا ہے، وہ بالکل وہی ہے جو اہل اسلام ہمیشہ سے تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہیں بھی ملائکہ کو صرف "کائناتی قوتیں” کہنے کے خود ساختہ نظریے کی تائید نہیں کی۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مفتی محمد عبدہؒ کا عقیدہ ملائکہ کے بارے میں وہی ہے جو جمہور امت کا ہے۔
اس کے برعکس، مسٹر پرویز نے ان روایتی اسلامی نظریات سے انحراف کیا ہے اور اسلام کی نظریاتی حدود سے باہر نکل گئے ہیں۔