مقروض اور قرض دہندہ پر زکاۃ کے احکام کی مکمل وضاحت
ماخوذ: احکام و مسائل، زکٰوۃ کے مسائل، جلد 1، صفحہ 270

قرض اور زکاۃ سے متعلق دو اہم سوالات و جوابات

سوال

1] ایک شخص نے کسی کو دس ہزار روپے قرض دیا ہوا ہے اور امید ہے کہ دو تین سال بعد وہ رقم واپس مل جائے گی۔ تو کیا قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سال اس دس ہزار کی زکاۃ ادا کرے، یا یہ ذمہ داری قرض لینے والے پر ہے کہ وہ اس رقم کی زکاۃ ادا کرے؟

2] ایک شخص پر بیس ہزار روپے قرض ہے جبکہ اس کے پاس پندرہ ہزار روپے مالیت کا سونا موجود ہے۔ کیا وہ اس سونے کی زکاۃ سے قرض ادا کر سکتا ہے یا نہیں؟ نیز، چونکہ وہ مقروض ہے، تو کیا اس پر زکاۃ فرض ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) قرض اور زکاۃ کا تعلق:

◈ قرض کی مد میں دی گئی رقم کی زکاۃ دینا قرض دینے والے پر لازم ہے، قرض لینے والے پر نہیں۔
◈ اگر کسی نے قرض دیتے وقت یہ شرط رکھی ہو کہ قرض لینے والا اس رقم کی زکاۃ بھی دے گا تو یہ شرط شرعاً ناجائز ہے۔
◈ اگر مقروض، اس ناجائز شرط کو تسلیم کرتے ہوئے قرض کی رقم پر زکاۃ ادا کرے تو:
➤ یہ سود کے زمرے میں آئے گا۔
➤ یا پھر زکاۃ کی ادائیگی قرض دینے والے کی طرف سے شمار کی جائے گی۔

(2) مقروض اور زکاۃ:

◈ دی گئی صورت میں مقروض شخص سونے کی زکاۃ کی رقم سے اپنا قرض ادا نہیں کر سکتا، کیونکہ:
➤ شریعت میں زکاۃ دینے والے کو اجازت نہیں کہ وہ زکاۃ کی رقم اپنے اوپر خرچ کرے۔
◈ البتہ:
➤ مقروض ہونے کے باوجود چونکہ وہ نصاب کے برابر مال (یعنی سونا) رکھتا ہے، اس لیے اس پر زکاۃ فرض ہے۔
➤ زکاۃ ادا کرنے کے بعد جو مال بچے، اس سے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔
➤ قرض کی ادائیگی بھی ان ضروریات میں شامل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(یہی میرا علم ہے، اور صحیح بات اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1