مقتدی کے اُونچی آواز سے آمین کہنے سے متعلق فقہی اختلاف
یہ اقتباس محمد مُظفر الشیرازی (مدیر جامعہ امام بخاری، سیالکوٹ) کی کتاب نماز میں اُونچی آواز سے آمین کہنا سے ماخوذ ہے جس کے مترجم حافظ عبدالرزاق اظہر ہیں۔

مقتدی کے آمین کہنے کے بارے میں آئمہ اربعہ کے اتفاق کے بعد جہراً آمین کہنے میں اختلاف ہے۔
زکریا الکاندھلوی، أوجز المسالك إلى موطأ مالك: 108/1

احناف کا مذہب:

احناف کا موقف یہ ہے کہ مقتدی آمین سراً کہے گا، جہراً نہیں کہے گا۔
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق: 113/1، شرح فتح القدير على الهداية: 295/1، الهداية شرح بداية المبتدى مع فتح القدير: 295/1، البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 331/1، حاشية رد المختار على الدر المختار: 492/1، الاختيار لتعليل المختار: 64/1۔
ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
أربع يخفيهن الإمام: التعوذ، والتسمية، وآمين، والتحميد
چار چیزیں ایسی ہیں جن کو امام مخفی کہے گا: تعوذ، بسم اللہ، آمین اور الحمد للہ۔
اس کی تخریج (ص: 75 پر) گزر چکی ہے۔
انھوں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول سے استدلال کیا ہے اور اپنے موقف کی علت یہ پیش کی ہے کہ یہ دعا ہے اور دعا کا بنیادی حق یہی ہے کہ مخفی اور آہستہ آواز سے کی جائے۔
صحیح بات یہ ہے کہ یہ اثر ابراہیم نخعی کا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا جواب اس بحث میں گزر چکا ہے جس میں ہم نے احناف کے جہری نمازوں میں امام کے آمین جہراً نہ کہنے کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ یہاں پر ہم اس کا دوبارہ تذکرہ نہیں کرنا چاہتے۔
ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب اس حدیث میں اختلاف کیا گیا تو مصنف اس روایت کی طرف مائل ہو گئے جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آتی ہے، وہ اس بات کی تائید کرتی ہے کہ جو بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہے وہ آمین مخفی آواز سے ہی کہنا ہے۔ لیکن وہ روایت جس میں آمین کا ذکر ہے وہ شخصی روایت رحمہ اللہ سے آتی ہے۔ واللہ اعلم۔
شرح فتح القدير على الهداية: 295/1
ان کی اس تعلیل کا بھی جواب گزر چکا ہے جہاں ہم نے امام کے جہراً آمین نہ کہنے پر گفتگو کی تھی، وہاں آپ رجوع کر سکتے ہیں۔
انھوں نے فرمایا کہ فرضی اور نفلی نمازوں میں ام القرآن کے بعد وہ خود بھی اور جو لوگ ان کے پیچھے ہوتے تھے، وہ اس قدر بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔
اس کی تخریج گزر چکی ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :
إذا آمن الإمام فآمنوا
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔
اس حدیث سے جو بات واضح اور ثابت ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ امام آمین جہراً کہے گا، علم کو سمجھنے والوں کو یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو اس وقت تک امام کے ساتھ آمین کہنے کا حکم نہیں دے سکتے، جب تک مقتدی جان نہ لے کہ امام بھی آمین کہہ رہا ہے۔ اگر امام آمین سراً کہے، جہراً نہ کہے تو مقتدی کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے امام نے آمین کہا ہے یا نہیں کہا۔
اور یہ بات محال ہے کہ آدمی سے کہا جائے کہ فلاں آدمی جب اس طرح کہے تو آپ نے بھی اس کے ساتھ اسی طرح ہی کہنا ہے، جب کہ آپ نے اس کی بات سنی بھی نہ ہو، یہ بات عین محال ہے۔
کوئی عالم آدمی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو آمین کہنے کا حکم دیں، جب اس کا امام آمین کہے اور حالت یہ ہو کہ مقتدی امام کی آمین کو نہ سن سکتا ہو۔
میں کہتا ہوں کہ ادلہ و براہین کی روشنی میں میرے لیے جو بات واضح اور ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ امام کے لیے ان نمازوں میں جن میں قرآت جہراً ہے، جہراً آمین کہنا ضروری ہے، کیونکہ مقتدیوں کی آمین کو امام کی آمین کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں معلق کر دیا گیا ہے۔
ابن خزيمة: الصحيح: 287/1
جب امام جہراً آمین نہ کہے گا تو مقتدیوں کو علم نہیں ہو گا، اور جب مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہ ہو گا تو پھر وہ کیسے آمین کہہ سکیں گے۔

مالکیہ کا مذہب:

مالکیوں کا مذہب یہ ہے کہ مقتدی سراً آمین کہے گا۔
زکریا الکاندھلوی، أوجز المسالك إلى موطأ مالك: 108/1

دلائل:

مالکیوں کی دلیل یہ ہے کہ آمین دعا ہے اور دعا میں افضل یہ ہے کہ مخفی آواز سے کی جائے۔
محمد بن ابراہیم المالکی، تنوير المقالة في حل ألفاظ الرسالة: 37/4۔
دلائل کا مناقشہ درج ذیل ہے:
مالکیہ کا اس بات سے استدلال کہ آمین دعا ہے اس لیے اس کو مخفی کہا جائے، یہ دلیل سورہ فاتحہ کے ان الفاظ کے ساتھ ٹوٹ جاتی ہے:
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
(سورة الفاتحة: 6-7)
یہ الفاظ بغیر کسی شک و شبہ کے دعا ہیں اور یہ جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں۔ اگر دعا کا حق یہی ہے کہ اس کو مخفی پڑھا جائے تو پھر سورہ فاتحہ کا آخر تو بالاولی مخفی پڑھا جانا چاہیے، کیونکہ یہ دعا ہے۔ یہ تو اس وقت ہے جب ہم ان کے دعوے کو بالفرض تسلیم کر لیں، مگر ”آمین“ اصل میں دعا نہیں ہے بلکہ یہ تو اس مہر کی طرح ہے جو خط پر ثبت کی جاتی ہے۔
امام ابوداود رحمہ اللہ ابو زہیر النميری رضی اللہ عنہ جو کہ صحابی رسول ہیں، کی حدیث لائے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ آمین خط پر مہر لگانے کی طرح ہے۔ پھر انھوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا:
إن ختم بآمين فقد أوجب
اگر اس نے دعا آمین کے ساتھ ختم کی تو اس نے قبولیت کو واجب کر لیا۔
اس کی تخریج (ص: 77 پر) گزر چکی ہے۔
اسی وجہ سے صرف آمین کے لفظ کے ساتھ دعا نہیں کی جاتی بلکہ پہلے دعا کی جاتی ہے پھر اس کے بعد آمین کہا جاتا ہے۔ اگر آپ تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو تحفة الأحوذي کی طرف رجوع کریں۔
تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي: 211/1

شافعیہ کا مذہب:

مقتدی بلند آواز سے آمین کہے گا۔
النووي للجموع شرح المهذب: 334/3، مغني المحتاج إلى معرفة ألفاظ المنهاج: 161/1، روضة الطالبين: 247/1، السراج الوهاج شرح متن المنهاج: 44، فتح الباري شرح صحيح البخاري: 266/4، شرح صحيح مسلم: 130/2
دلائل درج ذیل ہیں:
شافعیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال الإمام: غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو، یقیناً جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو گیا، اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے گئے۔
اس کی تخریج گزر چکی ہے۔
استدلال کی وجہ درج ذیل ہے:
شافعیوں نے کہا کہ اس حدیث میں آمین کہنے کا حکم ہے اور لفظ قول جب خطاب میں مطلق واقع ہو تو اس کو جہر پر محمول کیا جاتا ہے۔ جب اس سے سراً مراد لیا جائے یا نفس میں کہنا مراد ہو تو وہاں اس کو مقید کر دیا جاتا ہے۔ حدیث سے بلند آواز کے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں قول کو قول کے مقابل پیش کیا گیا ہے:
إذا قال الإمام فقولوا
جب امام کہے تو تم بھی کہو۔
اگر امام نے جہراً کہا ہے تو ظاہر ہے کہ صفت میں اتفاق ہوگا کہ مقتدی بھی جہراً آمین کہے۔
اور یہ بھی ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مقتدی کو امام کی اقتدا اور پیروی کا حکم ہے۔ یہ بات پہلے بھی گزر چکی ہے کہ اگر امام جہراً کہتا ہے تو مقتدی کے لیے بھی جہراً کہنا لازمی ہے۔ امام ابن بطال رحمہ اللہ بھی اس آخری موقف کی طرف گئے ہیں۔
الحافظ ابن حجر: فتح الباري شرح صحيح البخاري: 267/2
انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اثر سے بھی استدلال کیا ہے اور کہا کہ اس سے یہ بات قوی ہو جاتی ہے یعنی مقتدی کا جہراً آمین کہنا۔ عطاء رحمہ اللہ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ جو لوگ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے، وہ جہراً آمین کہا کرتے تھے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ایک اور سند سے عطاء رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
أدركت مائتين من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فى هذا المسجد، إذا قال الإمام: ولا الضالين، سمعت لهم رجة بآمين
میں نے اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا کہ جب امام وَلَا الضَّالِّينَ کہتا تھا تو میں ان کے آمین بلند آواز سے کہنے کی گونج کو سنتا تھا۔
الإمام البيهقي: السنن الكبرى، كتاب الصلاة، باب جهر المأموم بآمين: 59/2۔
دلائل کا مناقشہ درج ذیل ہے:
بے شک وہ حدیث جس سے انھوں نے استدلال کیا ہے، اس کی صحت متفق علیہ ہے۔ ان کے استدلال کی وجہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مقتدی کو امام کی اقتدا کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بات بھی پہلے گزر چکی ہے کہ جب امام جہراً آمین کہے گا تو مقتدی کو بھی جہر کے ساتھ جہراً کہنا لازم آئے گا۔
امام کے جہراً قرآت کرنے کی وجہ سے مقتدی کا بھی جہراً قرآت کرنا لازم نہیں آئے گا، کیونکہ امام کے پیچھے قرآت کرنے سے تو منع کر دیا گیا ہے، لیکن بلند آواز سے آمین کہنا امام کی اتباع کے عمومی حکم کے تحت داخل ہے۔
الحافظ ابن حجر: فتح الباري شرح صحیح البخاری: 26712
میں کہتا ہوں: یہاں اس مسئلے پر ایسے آثار ہیں جو صحیح سند کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک ثابت ہیں، جو مقتدی کے جہراً آمین کہنے پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتے ہیں۔ ان میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
آمين وقال الناس: آمين
بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا اور لوگوں نے بھی پیچھے آمین کہا۔
اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث، جس کے الفاظ یہ ہیں:
ما حسدتكم اليهود ما حسدتكم على السلام والتأمين
یہودی تمہاری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ تمہارے سلام اور آمین کہنے پر حسد کرتے ہیں۔
اس کی تخریج ( ص : 48) پر گزر چکی ہے۔
یہودیوں کا حسد تو اس وقت ہوگا جب آمین بلند آواز سے کہی جائے گی۔ اگر مخفی آمین کہنے کی وجہ سے حسد ہو تو اس کا کوئی مفہوم ہی نظر نہیں آتا۔ اس بات پر خوب غور کیجیے۔
اس مختلف فیہ مسئلہ پر دلالت کرنے والے ان دلائل کو ذکر کرنے کے بعد ہمیں ایسی تخریجات اور بحثوں کی حاجت وضرورت نہیں جن میں تکلف سے کام لیا گیا ہے۔

حنابلہ کا مذہب:

مقتدی جہری نماز میں بلند آواز سے آمین کہے گا۔
أبو اسحاق المؤرخ الحنبلي: المبدع في شرح المقنع: 439/1، 440، ابن قدامة: المغني: 490/1، مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى: 431-432/1، الروض الندي شرح كافي المبتدى: 75، كتاب الفروع: 316/1، مسائل الإمام أحمد بن حنبل (برواية ابنه عبدالله): 256/1
حنابلہ کے دلائل درج ذیل ہیں:
انھوں نے اس حدیث نبوی سے استدلال کیا ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے:
إذا أمن الإمام فآمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
ترجمہ: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی، اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
اس کی تخریج (ص: 24 اور 64 پر) گزر چکی ہے۔
اسی طرح انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اثر سے بھی استدلال کیا ہے، جس کو ابن جریج عطاء رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا:
أكان ابن الزبير يؤمن على إثر أم القرآن؟ نعم، ويؤمن من وراءه حتى إن للمسجد لجة
ترجمہ: کیا ابن زبیر رضی اللہ عنہ ام القرآن کے بعد آمین کہا کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواب میں کہا: ہاں، وہ بھی اور جو ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والے ہوتے تھے، وہ اس قدر بلند آواز سے آمین کہتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔
اس کی تخریج (ص: 24 اور 64 پر) گزر چکی ہے۔
ان کے دلائل کا مناقشہ درج ذیل ہے:
وہ حدیث جس سے انھوں نے استدلال کیا ہے، اس حدیث کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اثر اس کی سند ان تک بالکل درست اور صحیح ہے۔

مقتدی کے بلند آواز سے آمین کہنے کے مسئلے پر راجح موقف:

اس مسئلے میں راجح موقف درج ذیل ادلہ اور براہین کی بنیاد پر یہی ہے کہ مقتدی جہری نماز میں بلند آواز یعنی جہراً آمین کہے گا۔

اولاً:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قال الإمام: غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا: آمين فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو اور یقیناً جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو گیا، اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
امام تو یہ کلمات بلند آواز سے کہتا ہے، تو ظاہر کو دیکھ کر صفت میں اتفاق ہونا چاہیے۔ امام بلند آواز سے کہتا ہے تو مقتدی بھی بلند آواز سے کہنا چاہیے۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان، باب جهر الإمام بالتأمين: 264/2، رقم: 780، صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب التسميع والتحميد والتأمين: 128/4، ابوداود، رقم: 936

امام زین الدین ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں آمین کہنے کا حکم لفظ قول کے ساتھ دیا گیا ہے اور لفظ قول کے ساتھ جب مطلق خطاب ہو تو اس وقت اس کو جہر پر محمول کیا جاتا ہے۔ جب اس سے مخفی یا نفس میں بات کرنا مراد ہو تو وہاں اس کو مقید کر دیا جاتا ہے۔
الحافظ ابن حجر: فتح الباري شرح صحيح البخاري: 267/2۔
امام ابن رشد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں قول کو قول کے مقابلے میں لایا گیا ہے:
إذا قال الإمام فقولوا
امام تو یہ کلمات بلند آواز سے کہتا ہے تو ظاہر کو دیکھ کر صفت میں اتفاق ہونا چاہیے۔
المصدر السابق
امام بلند آواز سے کہتا ہے تو مقتدی بھی بلند آواز سے کہنا چاہیے۔

ثانیاً:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی وجہ سے جس میں یہ الفاظ ہیں:
قال أبو هريرة: آمين وقال الناس: آمين ثم إني لأشبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آمین کہا اور لوگوں نے بھی آمین کہا، پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔
سنن نسائي، كتاب الصلاة، باب قراءة بسم الله الرحمن الرحيم: 301/2، صحيح ابن خزيمة، كتاب الصلاة، باب ذكر الدليل على أن الجهر ببسم الله: 251/1، رقم: 499۔

ثالثاً:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کی وجہ سے جس میں یہ الفاظ ہیں:
ما حسدتكم اليهود ما حسدتكم على السلام والتأمين
یہودی تمہاری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ تمہارے سلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں۔
میں کہتا ہوں: یہودیوں کو حسد پر ابھارنے والی چیز تو جہراً اور بلند آواز سے آمین کہنا ہے۔ اگر مخفی آواز میں آمین کہنے کی وجہ سے ان کا حسد کرنا ہو تو اس کا کوئی مفہوم ہی نہیں بنتا۔
اور اس کے باوجود بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان میں اس کا حکم بھی دیا ہے:
فقولوا آمين
تم آمین کہو۔
یہ امر وجوب کے لیے ہے۔

رابعاً:

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اثر، جس میں یہ الفاظ ہیں:
أن من خلف ابن الزبير كانوا يؤمنون جهرا حتى تكون للمسجد لجة
جو لوگ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے، وہ بلند آواز سے آمین کہتے تھے، حتیٰ کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔
مصنف عبدالرزاق، أبواب القراءة، باب آمين: 96/2، رقم: 263
عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أدركت مائتين من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فى هذا المسجد، إذا قال الإمام: ولا الضالين، سمعت لهم رجة بآمين
میں نے اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو سو کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے، جب امام وَلَا الضَّالِّينَ کہتا تھا تو وہ سارے پیچھے بلند آواز سے آمین کہتے تھے، میں نے ان کے بلند آواز سے آمین کہنے کی گونج کو سنا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1