مغرب کے بعد اور نماز عشاء کی غیر مؤکدہ سنتیں
یہ اقتباس ابو عدنان محمد منیر قمر نواب الدین کی کتاب نماز پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد سے ماخوذ ہے۔

بعض روایات میں مغرب و عشاء کے درمیان چار رکعتوں، بعض میں چھ اور بعض میں آٹھ کا ذکر ملتا ہے لیکن ان روایات کی اسنادی حیثیت غیر معتمد ہے۔ آئمہ و ماہرین فن حدیث کے نزدیک چار رکعتوں والی روایت مرسل، چھ والی سخت ضعیف اور آٹھ والی روایت موضوع و من گھڑت ہے۔
صحیح بخاری 160/4 ابن خزیمہ 267/2 دار قطنی 266/1 سنن دارى للتفصيل المرعاة 48/2-165
البتہ رکعتوں کی تعداد متعین کیے بغیر مغرب و عشاء کے درمیان نوافل پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
صليت مع النبى صلى الله عليه وسلم المغرب فلما قضى صلوته قام فلم يزل يصلى حتى صلی العشاء ثم خرج
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز (فرض اور مؤکدہ سنتیں) پڑھ لیں تو کھڑے ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء تک نفلی نماز پڑھتے رہے (اور نماز عشاء کے بعد) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلے۔
الارواء 322/3
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کے بعد سے عشاء تک کے دوران جتنی نوافل چاہے پڑھے ثواب ہے۔ تعداد متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔
لتفصیل نیل 11 وطار 54/3/2 الفتح الربانی 215/3
جب نماز عشاء کی اذان ہو تو اس کی اذان و اقامت کے مابین کافی وقفہ ہوتا ہے۔ اس عرصہ میں جتنی رکعتیں پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ جو شخص مسجد کے اندر موجود ہو وہ بین کل اذانین صلوة والی حدیث پر عمل کرتے ہوئے دو رکعتیں پڑھ لے۔
قدمر تخریبہ
کہ جو شخص باہر سے مسجد میں آئے تو اسے مذکورہ حدیث کے علاوہ تحیة المسجد اور تحیة الوضوء والی احادیث پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ البتہ اس نفلی عبادت کی جتنی بھی رکعتیں پڑھے دو دو کر کے پڑھے اور اگر مسجد میں داخل ہونے پر جماعت کھڑی ہو جائے تو پھر جماعت سے مل جائے کیونکہ ایسے میں یہ غیر مؤکدہ سنتیں تو کجا مؤکدہ کی ادائیگی بھی جائز نہیں۔ بعض کتب فقہ (الفقه على المذاهب الاربعه وغيره) میں خاص نماز عشاء سے پہلے چار غیر مؤکدہ سنتیں جنہیں عموماً ایک ہی سلام سے پڑھا جاتا ہے۔ اس کیفیت و کمیت کو ظاہر کرنے والی کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری۔ عشاء کے فرضوں کے بعد دو سنتیں تو راتبہ یا مؤکدہ ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ میں تو انہی مؤکدہ دو سنتوں کا ذکر ہے۔ اسی طرح صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
ثم يصلي بالناس العشاء ويدخل بيتي فيصلي ركعتين
آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں) لوگوں کو عشاء پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
قدم تخریجھا
ان احادیث میں تو نماز عشاء کے فرضوں کے بعد صرف دو ہی سنتوں کا پتا چلتا ہے جو کہ مؤکدہ ہیں البتہ ابوداؤد میں ایک روایت ہے جس میں چار یا چھ رکعتوں کا ذکر ہے۔ اس حدیث کی شرح میں شارح ابوداؤد علامہ عظیم آبادی نے لکھا ہے کہ ان احادیث کا مفاد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسب موقع کبھی دو رکعتیں، کبھی چار اور کبھی چھ پڑھتے تھے۔
عون المعبود 186/4
صرف چار رکعتوں کے بارے میں متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے کئی احادیث مروی ہیں۔ جو اگرچہ اکثر ضعیف ہیں البتہ ابوداؤد، مسند احمد اور بیہقی کی ایک روایت کو امام ابوداؤد، منذری اور شوکانی کے الفاظ کچھ قابل اعتبار ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا فرضوں کے بعد دو مؤکدہ سنتوں کے علاوہ دو غیر مؤکدہ و منتخب رکعتوں کا بھی پتا چلتا ہے۔ تو گویا جو دو رکعتیں نفلوں کے نام سے پڑھی جاتی ہیں وہ یہی ہیں۔
راجع التفصیل المرعاة 152/3
ابوداؤد کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
المشكاة ا/368
لیکن امام شوکانی نے کہا ہے۔
رجال إسناده ثقات ومقاتل بن بشير العجلي قد وثقه ابن حبان
اس کی سند راوی ثقہ ہیں اور مقاتل بن بشیر العجلی کو امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
النیل 18/3/2
بخاری، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گزاری۔ اسی حدیث میں وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء پڑھ کر اپنے گھر آئے اور چار رکعتیں پڑھیں۔
النیل 18/3/2، الفتح الربانی 220-221/4
الغرض ان چار یا چھ رکعتوں میں سے جمہور علماء کے نزدیک دو سنتیں مؤکدہ اور باقی مستحب و نوافل ہیں۔
الفتح الربانی 221/4

اوقات سنن:

امام ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ نماز سے پہلے والی سنتوں کا وقت نماز کے وقت کے داخل ہو جانے سے نماز تک ہے اور بعد والی سنتوں کا وقت فرض نماز ادا ہو چکنے سے لے کر اس نماز کا وقت گزر جانے تک ہے۔
المغنی 128/1
جبکہ مؤکدہ سنتوں کی قضاء بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسے فجر کی دو سنتوں اور ظہر کی بعد والی دو سنتوں کی قضاء کتب حدیث میں معروف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1