نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نفل کے متعلق سوال و جواب
سوال
"نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نفل”
"حدیث اور اہل حدیث” نامی ایک رسالہ شائع ہوا ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنا مسنون نہیں ہے۔ اس دعوے کی تائید کے لیے چند احادیث پیش کی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ احادیث صحیح ہیں؟ درج ذیل احادیث کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے:
دلائل کے طور پر پیش کی گئی احادیث
➊ عن طاوس قال: سئل ابن عمر عن الركعتين قبل المغرب فقال: ما رأيت أحداً على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليها
(سنن ابی داود، جلد 1، صفحہ 182)
➋ وعن حماد قال: سألت إبراهيم عن الصلاة قبل المغرب فنهاني عنها وقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر لم يصلوها
(کتاب الآثار للإمام أبی حنیفہ برواية الإمام محمد، صفحہ 32)
➌ عن عبد الله بن بريدة عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال بين كل أذانين صلاة إلا المغرب
(کشف الاستار عن زوائد مسند البزار، جلد 1، صفحہ 334)
جواب
الحمدللہ، والصلاة والسلام علی رسول الله، أما بعد:
پہلی روایت: طاوس عن ابن عمر
(سنن ابی داود، جلد 1، صفحہ 182، حدیث نمبر 1284)
◈ اس روایت کی سند "حسن” ہے۔
◈ شعب یا ابو شعیب کی جہالت کی بنا پر اسے ضعیف قرار دینا درست نہیں۔
◈ روایت کے آخر میں موجود جملہ "ورخص في الركعتين بعد العصر” (عصر کے بعد دو رکعتوں کی اجازت دی) بعض فرقوں کے خلاف ہونے کی بنا پر اس حصے کو اکثر چھپا لیا جاتا ہے۔
◈ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ان رکعتوں کو نہ دیکھنا، ان کے وجود کے انکار کی دلیل نہیں ہو سکتا۔
◈ صحیح البخاری: 503، 635 اور صحیح مسلم: 836، 837 میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے ان دو رکعتوں کی ادائیگی کی ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا اور منع نہیں فرمایا۔
صحیح حدیث کی روشنی میں:
قال النبي ﷺ: "صلوا قبل المغرب”
(صحیح البخاری: 1183)
◈ اس حدیث کے آخر میں "لمن شاء” کا جملہ بتاتا ہے کہ یہ حکم استحبابی ہے، وجوبی نہیں۔
عبد اللہ المزنی رضی اللہ عنہ کی گواہی:
"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى قبل المغرب ركعتين”
(صحیح ابن حبان، موارد الظمان: 617، وھذا اسناد صحیح علی شرط مسلم، مختصر قیام اللیل للمروزی، ص 64، وقال النمیوی: واسنادہ صحیح، آثار السنن، حدیث: 694)
◈ دو سچے گواہوں میں جو کہے کہ میں نے دیکھا ہے، اس کی گواہی اس کے مقابلے میں زیادہ معتبر ہوتی ہے جو کہے کہ میں نے نہیں دیکھا۔
◈ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی عدم رویت، عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتی۔
◈ ان کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دو رکعتوں کا پڑھنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
دوسری روایت: حماد عن ابراہیم النخعی
(الآثار لمحمد بن الحسن الشيباني، صفحہ 192، حدیث 145)
یہ روایت کئی وجوہات سے مردود ہے:
➊ محمد بن الحسن الشيباني سخت مجروح راوی ہے:
◈ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:
"محمد (بن الحسن) جہمی ہے، جو کذاب ہے”
(الضعفاء للعقيلي، جلد 4، صفحہ 52، سندہ صحیح)
◈ مزید فرمایا: "ليس بشيء”
(تاریخ ابن معین، روایت الدوری، 177)
➋ حماد بن سلمة آخر عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے:
◈ حافظ نورالدین الہیثمی (متوفی 807ھ) کے مطابق، حماد سے صرف شعبہ، سفیان الثوری، اور ہشام الدستوائی کی روایات معتبر ہیں۔
(مجمع الزوائد، جلد 1، صفحہ 119-120)
➌ مصنف عبدالرزاق (2/435، حدیث 3985) میں بھی یہی مفہوم ہے، مگر وہ روایت بھی ضعیف ہے۔
تیسری روایت: عبد الله بن بریدة عن أبيه
(کشف الاستار، جلد 1، صفحہ 334)
◈ اس روایت کا راوی حیان بن عبيد الله ہے، جسے امام ابن عدی نے ضعیف راوی قرار دیا اور کہا کہ وہ اختلاط کا شکار ہوا۔
(بحوالہ: مجمع الزوائد، جلد 2، صفحہ 231)
◈ اس کی روایت صحیح روایات کے خلاف ہے، لہٰذا یہ منکر اور مردود ہے۔
◈ کسی بھی معتبر امام نے اس کی روایت کو صحیح یا حسن قرار نہیں دیا۔
نتیجہ
◈ آپ کی ذکر کردہ دوسری اور تیسری روایتیں ضعیف و مردود ہیں۔
◈ پہلی روایت سے صرف عدم وجوب کا مفہوم اخذ ہوتا ہے، نہ کہ عدم استحباب کا۔
انوار خورشید کی حقیقت
◈ "حدیث اور اہل حدیث” کے مصنف انوار خورشید کو سخت کذاب اور وضاع کہا گیا ہے۔
دلیل:
➊ صحیح آثار صحابہ میں آیا ہے کہ وہ صف باندھنے میں قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملاتے تھے۔
(صحیح البخاری وغیرہ، حدیث اور اہل حدیث، طبع مئی 1993، ص 509)
➋ انوار خورشید نے ان آثار کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ غیر مقلدین کو گردن سے گردن بھی ملانا چاہیے، حالانکہ کسی حدیث میں یہ ذکر نہیں۔
➌ اس نے لکھا کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام بخاریؒ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے، حالانکہ بعد کے ایڈیشنوں میں یہ عبارت خود حذف کردی۔
◈ انوار خورشید کی یہ تحریریں جھوٹ اور تحریف پر مبنی ہیں۔
خلاصہ
◈ مغرب سے پہلے دو رکعت نفل کی ادائیگی ثابت ہے۔
◈ یہ عمل مستحب ہے، نہ کہ واجب۔
◈ پیش کردہ احادیث میں سے صرف ایک کی سند حسن ہے اور وہ بھی استحباب پر دلالت کرتی ہے۔
◈ دیگر احادیث ضعیف اور ناقابلِ قبول ہیں۔
◈ "حدیث اور اہل حدیث” کے مصنف کی علمی دیانت مشکوک ہے۔
والحق أحق أن يُتبع
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب