مسکراہٹ اور آنسو سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

خوشی کے آنسو

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَىٰ ‎﴿٤٣﴾‏
(53-النجم:43)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور وہی (اللہ ) ہنساتا ہے اور رُلاتا ہے۔ “

حدیث 1

عن عائشة فبينما نحن يوما جلوس فى بيت أبى بكر فى نحر الظهيرة ، قال قائل لأبي بكر هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم متقنعا فى ساعة لم يكن يأتينا فيها . فقال أبو بكر: فداء له أبى وأمي، والله ما جاء به فى هذه الساعة إلا أمر. قالت: فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذن ، فأذن له ، فدخل فقال النبى صلى الله عليه وسلم لأبي بكر: أخرج من عندك فقال أبو بكر: إنما هم أهلك بأبي أنت يا رسول الله! قال: فإني قد أذن لي فى الخروج . فقال أبو بكر الصحابة بأبي أنت يا رسول الله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم۔
صحیح بخاری، کتاب مناقب الأنصار ، رقم : 3905 .
”(زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب ہم سورج ڈھلنے (زوال) کے وقت سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹھے تھے کہ کسی نے ان سے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر ڈھانپے ہوئے تشریف لا رہے ہیں ۔ اور اس وقت ہمارے ہاں تشریف لانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت نہ تھی ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان پر میرے ماں باپ قربان ! اللہ کی قسم ! اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کی تشریف آوری کسی اہم مقصد ہی کے لیے ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر تشریف لانے کی اجازت طلب کی ۔ اجازت ملنے پر اندر تشریف لائے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جو لوگ تمھارے پاس موجود ہیں انھیں باہر بھیج دو ۔ سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے باپ آپ پر فدا ہوں ۔ “

سائل کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا

حدیث 2

وعن أبى هريرة رضي الله قال: أتى رجل النبى صلى الله عليه وسلم فقال: هلكت، وقعت على أهلي فى رمضان ، قال: أعتق رقبة قال: ليس لي ، قال: فصم شهرين متتابعين، قال: لا أستطيع ، قال: فأطعم ستين مسكينا قال: لا أجد فأتي النبى صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر قال إبراهيم العرق المكتل فقال: أين السائل؟ تصدق بها . قال على أفقر منى؟ والله ما بين لابتيها أهل بيت أفقر منا . فضحك النبى صلى الله عليه وسلم حتى بدت واجده، قال: فأنتم إذا
صحيح بخارى، كتاب الأدب، رقم الحديث : 6087.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اُنھوں نے کہا کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میں تو تباہ ہو گیا ۔ میں نے ماہ رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ جماع کر لیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک غلام آزاد کر۔ اس نے کہا: میرے پاس غلام نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ اس نے کہا ان روزوں کی مجھ میں ہمت نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ۔ اس نے کہا: یہ کام بھی میری استطاعت سے باہر ہے ۔ اس دوران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجور میں تھیں (راوی حدیث ) ابراہیم نے کہا عرق ایک طرح کا پیمانہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سائل کہاں ہے؟ لو اسے صدقہ کر دو ۔ اس نے کہا: مجھ سے زیادہ جو ضرورت مند ہو اسے دوں؟ اللہ کی قسم ! مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے ۔ یہ بات سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دانت کھل گئے ، پھر فرمایا: اچھا پھر اس وقت تم ہی انھیں کھالو۔“

دیہاتی کی بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا

حدیث 3

وعن أنس بن مالك قال: كنت أمشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه برد نجراني غليظ الحاشية فأدركه أعرابي فجبذ بردائه جبدة شديدة ، قال أنس : فنظرت إلى صفحة عاتق النبى صلى الله عليه وسلم وقد أثرت بها حاشية الرداء من شدة جبدته ، ثم قال: يا محمد، مرلى من مال الله الذى عندك ، فالتفت إليه فضحك ثم أمر له بعطاء
صحیح بخاری کتاب الأدب، رقم : 6088 .
” اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موٹے کنارے والی نجرانی چادر اوڑھ رکھی تھی ۔ اس دوران میں ایک دیہاتی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر بڑے زور سے کھینچی ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ مبارک کو دیکھا کہ چادر کو زور سے کھینچنے کی بنا پر اس پر نشان پڑ گئے تھے ، پھر اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کا جو مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے ، اس میں سے مجھے دینے کا حکم دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم نے مڑ کر اسے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے مال دینے کا حکم دیا ۔ “

اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے تنہائی میں رونا

حدیث 4

وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: سبعة يظلهم الله يوم القيامة فى ظله يوم لا ظل إلا ظله: إمام عادل، وشاب نشأ فى عبادة الله، ورجل ذكر الله فى خلاء ففاضت عيناه، ورجل قلبه معلق فى المسجد ، ورجلان تحابا فى الله ، ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال إلى نفسها قال: إني أخاف الله ، ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما صنعت يمينه
صحیح بخاری، کتاب الحدود، رقم : 6806 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے تلے جگہ عطا فرمائے گا۔ اس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ عادل حکمران ، وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ہو ، وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ پڑیں ، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگتا رہتا ہے ، وہ دو آدمی جو صرف اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں ، وہ شخص جسے کوئی بلند مرتبہ اور خوبرو عورت اپنی طرف بلائے لیکن وہ کہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، اور وہ شخص جس نے اس قدر پوشیدہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں ہاتھ سے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے۔“

خوف الہی سے بہنے والی آنکھ کی فضیلت

قَالَ الله تَعَالَى: فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ‎﴿٨٢﴾
(9-التوبة:82)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”چنانچہ انھیں چاہیے کہ وہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں ان اعمال کے بدلے میں جو وہ کماتے رہے۔“

حدیث 5

وعن معاوية بن حيدة قال : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ثلاثة لا ترى أعينهم النار: عين حرست فى سبيل الله ، وعين بكت من خشية الله، وعين كفت عن محارم الله
معجم كبير للطبراني : 416/19 ، مجمع الزوائد : 288/5، صحيح الترغيب والترهيب ، رقم : 3326 .
” اور حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: تین قسم کی آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوٹے گی : (ایک ) وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی ہے ، (دوسرے ) وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے روپڑتی ہے ، اور (تیسرے) وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء ( کو دیکھنے سے ) رُک جاتی ہے۔“

قرآن حکیم سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آنسو بہانا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ﴿٥٨﴾
(19-مريم:58)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”یہ وہ (انبیاء) ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان لوگوں ( کی نسل) میں سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا، اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد سے، اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے ہدایت دی اور چن لیا، جب ان رحمن کی آیات تلاوت کی جاتیں تو وہ سجدہ کرتے ہوئے روتے ہوئے گر جاتے تھے۔ “

حدیث 6

وعن عبد الله قال يحيى بعض الحديث عن عمرو بن مرة – قال قال لي رسول الله اقرأ علي، قلت: اقرأ عليك وعليك أنزل؟ قال فإنى أحب أن أسمعه من غيري ، فقرأت عليه سورة النساء حتى بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا قال: أمسك ، فإذا عيناه تدرفان
صحیح بخاری، کتاب التفسير، تقسير سورة النساء رقم 4582، صحیح مسلم ، كتاب صلاة المسافرين، رقم : 800 .
” اور سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ ، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھ کر سناؤں ؟ جب کہ قرآن حکیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنے علاوہ دوسرے سے سننا پسند کرتا ہوں ، چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نساء پڑھی ، یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا: ”پس اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ بنائیں گے ۔ “ [النساء: 41] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بس اب کافی ہے ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ آپ مسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ “

ندامت کے آنسو بہانا

حدیث 7

وعن سالم بن أبى الجعد قال: قال عيسى عليه السلام: طوبى لمن حزن لسانه، ووسعه، بيته، وبكى من ذكر خطيئته
حسن السمت في الصمت، رقم : 65 ، الزهد للإمام أحمد، رقم : 305، الزهد للإمام وكيع ، رقم : 31 ، 255۔ اس کی سند صحیح ہے۔
” اور سید نا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو وعظ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ” جنت میں اس شخص کے لیے طوبی ( درخت کا سایہ ہے ) جو اپنی خطاؤں پر ندامت کے آنسو بہائے ، اپنی زبان کی حفاظت کرے اور اس کا گھر اس کو وسیع ہو جائے ۔“

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا

حدیث 8

وعن عمرو بن عوف ، وهو حليف بني عامر بن لؤي وكان شهد بدرا مع رسول الله ، أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث أبا عبيدة بن الجراح إلى البحرين ، يأتى بجزيتها ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو صالح أهل البحرين ، وامر عليهم العلاء بن الحضرمي، فقدم أبو عبيدة بمال من البحرين ، فسمعت الأنصار بقدوم أبى عبيدة، فوافوا صلوة الفجر مع رسول الله ، فلما صلى رسول الله انصرف ، فتعرضوا له ، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رآهم ، ثم قال: أظنكم سمعتم أن أبا عبيدة قدم بشيء من البحرين؟ فقالوا: أجل، يارسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فابشروا واملوا ما يسركم ، فوالله ما الفقر اخشى عليكم، ولكني أخشى عليكم أن تبسط الدنيا عليكم، كما بسطت على من كان قبلكم ، فتنافسوها كما تنافسوها ، وتهلككم كما أهلكتهم
صحيح مسلم، کتاب الرقاق ، رقم : 7425 .
”اور سید نا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو جزیہ وصول کرنے کے لیے بحرین بھیجا، وہ جب بحرین سے (ایک لاکھ اسی ہزار درہم جزیہ کا) مال لے کر آئے ، اور انصار کو ان کے آنے کا علم ہوا تو اُنھوں نے (اپنے اپنے قبیلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی بجائے ) صبح کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مسجد نبوی میں ادا کی ، نماز سے فارغ ہوتے ہی وہ آنحضرت صلى الله عليه وسلمم کے سامنے حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں دیکھ کر مسکرائے ۔ پھر فرمایا: میرا گمان ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور کچھ مال لے کر آئے ہیں، وہ بولے ، ہاں ! یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خوش ہو جاؤ اور امید رکھو کہ تمھاری خوشی اور مسرت کا دور آنے والا ہے ۔ اللہ کی قسم ! مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم مفلس ہو جاؤ گے ، میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دولت دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر یہ کشادہ ہوئی تھی ، اور ان ہی کی طرح تمھیں مال و دولت کی طرف رغبت ہوگی اور اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے ، اور یہ دنیا کی فراوانی ، وسعت اور اس کی طرف بے انتہاء رغبت تمھیں تباہ کر کے رکھ دے گی ، جیسا کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو بربادی اور ہلاکت کے غار میں دھکیل دیا تھا۔“

اہل جہنم کا رونا

حدیث 9

وعن عبد الله بن قيس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أهل النار ليبكون، حتى لو أجريت السفن فى دموعهم ، لجرت ، وإنهم ليبكون الدم – يعني – مكان الدمع
مستدرك الحاكم : 605/4 ، سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم : 1679 .
”اور حضرت عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہنمی اس قدر روئیں گے کہ اگر ان کے آنسوؤں میں کشتیاں چلائی جاتیں تو چلنے لگیں ( آنسو ختم ہو جائیں گے ) تو اہل جہنم خون کے آنسو بہائیں گے یعنی پانی کے آنسوؤں کی جگہ۔ “

بُرے انسان کی میت کا گریہ

حدیث 10

وعن أبى سعيد الخدرك رضی اللہ عنہ : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا وضعت الجنازة واحتملها الرجال على أعناقهم فإن كانت صالحة قالت: قدموني ، وإن كانت غير صالحة قالت: يا ويلها أين يذهبون بها؟ يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان ،
ولو سمعه لصعق

صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم 1314 ، 1316 ۔
”اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب جنازہ تیار ہوتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو نیک آدمی کہتا ہے : مجھے جلدی لے چلو ، اگر نیک نہ ہوتو کہتا ہے : ہائے ہلاکت ! مجھے کہاں لے جا رہے ہو ، میت کی آواز انسانوں ( اور جنوں) کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے ۔ “

اللہ تعالیٰ کا محبوب قطرہ

حدیث 11

وعن أبى أمامة ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ليس شيء أحب إلى الله من قطرتين وأثرين: قطرة من دموع فى خشية الله، وقطرة دم تهراق فى سبيل الله . وأما الأثران: فأثر فى سبيل الله تعالى، وأثر فى فريضة من فرائض الله
سنن ترمذی، ابواب الجهاد، رقم : 1669 ، المشكاة، رقم : 3837۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے ۔
”سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز مجھے محبوب نہیں ، ایک آنسوؤں کا وہ قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلے اور دوسرا وہ قطرہ خون جو اللہ کے راستے میں بہایا جائے ۔ رہے دو نشان ( تو ان میں سے ) ایک نشان تو وہ ہے جو اللہ کے راستے میں (لڑتے ہوئے ) لگے اور دوسرا ( نشان ) وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے کوئی فرض ادا کرتے ہوئے لگے ۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی والدہ کی قبر پر بے اختیار رونا

حدیث 12

وعن أبى هريرة قال: زار النبى صلى الله عليه وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله فقال: استأذنت ربي فى أن أستغفر لها؛ فلم يؤذن لي ، واستأذنته فى أن أزور قبرها ، فأذن لي ، فزوروا القبور فإنها تذكركم الموت
صحيح مسلم ، کتاب الجنائز، رقم : 2259 ، سنن ابو داؤد ، کتاب الجنائز، رقم : 3234، سنن ابن ماجه ، کتاب الجنائز ، رقم 1522 ، سنن نسائی ، کتاب الجنائز، رقم: 2036 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی (اس کی قبر پر گئے ) خود بھی روئے اور اپنے ارد گرد والوں کو بھی رلا دیا، اور آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ میں اس کے لیے بخشش کی درخواست کروں تو مجھے اجازت نہیں دی گئی۔ اور میں نے اس سے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو اس نے مجھے اجازت دے دی تم قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ وہ موت یاد دلاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار دیکھا تو بے اختیار رو دیے۔ “

حدیث 13

وعن عائشة رضي الله عنها قالت: لما بعث أهل مكة فى فداء أسراهم بعثت زينب فى فداء أبى العاص بمال ، وبعثت فيه بقلادة لها كانت عند خديجة أدخلتها بها على أبى العاص . قالت: فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم رق لها رقة شديدة ، وقال: إن رأيتم أن تطلقوا لها أسيرها وتردوا عليها الذى لها ، فقالوا: نعم ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ عليه ، أو وعده، أن يخلي سبيل زينب إليه ، وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة ورجلا من الأنصار ، فقال: كونا ببطن يأجج حتى تمر بكما زينب فتصحباها حتى تأتيا بها
سنن ابو داؤد ، کتاب الجهاد، رقم : 2692۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔

”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب مکے والوں نے اپنے قیدی مدینے بھیجے تو اس وقت زینب رضی اللہ عنہا نے ابو العاص کے بدلے میں کچھ مال بھیجا اور اس مال میں ایک ہار بھیجا تھا ، جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا ، انھوں نے یہ جہیز میں دیا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی حالت غربت پر آپ بے اختیار روپڑے ، (اور مصاحبت خدیجہ رضی اللہ عنہ یاد آئی، اس لیے کہ یہ ہار ان کے گلے میں رہتا تھا ۔) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اگر تم مناسب جانو تو زینب رضی اللہ عنہا کی خاطر کے لیے اس کے قیدی کو چھوڑ دو ، اور جو مال اس کا ہے وہ بھی اس کو واپس کر دو ، سب نے سر اطاعت خم کر دیا ، یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ہاں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا مال بھی پھیر دیتے ہیں اور ابو العاص کو بھی رہا کر دیتے ہیں ۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سید نا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر رو دیئے

حدیث 14

وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: دخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على أبى سيف القين، وكان ظفرا لإبراهيم عليه السلام فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم إبراهيم فقبله وشمه ، ثم دخلنا عليه بعد ذلك وإبراهيم يجود بنفسه ، فجعلت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم تدرفان ، فقال له عبد الرحمن بن عوف ، وأنت يا رسول الله؟ فقال: يا ابن عوف ، إنها رحمة ثم أتبعها بأخرى ، فقال : إن العين تدمع ، والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضى ربنا وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون
صحیح بخاری کتاب الجنائز، رقم : 1303 .
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسیف لوہار کے ہاں گئے ، یہ ابراہیم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ ) کو دودھ پلانے والی آیا کے شوہر تھے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم بھی ان کو گود میں لیا ، اور پیار کیا اور سونگھا ۔ پھر اس کے بعد ہم ان کے ہاں گئے ۔ دیکھا کہ اس وقت ابراہیم رضی اللہ عنہ دم توڑ رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں ۔ تو سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لوگوں کی طرح بے صبری کرنے لگے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن عوف ( رضی اللہ عنہ ) ! یہ بے صبری نہیں یہ تو رحمت ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ روئے اور فرمایا: آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے ، لیکن زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم ( رضی اللہ عنہ ) ! ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں ۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سید نا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر رودیئے

حدیث 15

عن ابن عمر رضي الله عنه قال اشتكى سعد بن عبادة شكوى، فأتاه النبى صلى الله عليه وسلم يعوده مع عبد الرحمن بن عوف ، وسعد بن أبى وقاص، وعبد الله بن مسعود رضي الله عنه ، فلما دخل عليه ، فوجده فى غاشية أهله فقال: أقضى؟ قالوا: لا يا رسول الله فبكى النبى صلى الله عليه وسلم فلما رأى القوم بكاء النبى صلى الله عليه وسلم بكوا، قال: ألا تسمعون إن الله لا يعذب بدمع العين ولا بحزن القلب، ولكن يعذب بهذا وأشار إلى لسانه أو يرحم
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1304 ، صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم : 924 .
”اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی معیت میں ان کی مزاج پرستی کے لیے تشریف لے گئے ، جب ان کے پاس پہنچے تو انھیں بے ہوشی کی حالت میں پایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا ان کا انتقال ہو گیا ہے؟ اُنھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار رو پڑے، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو ان پر بھی گر یہ طاری ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم سنتے نہیں ؟ کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو کی وجہ سے عذاب دیتا ہے اور نہ دل کے غم کے سبب۔ لیکن وہ تو اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا ۔ یا رحم فرماتا ہے ۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت پر رو دیئے

حدیث 16

وعن أنس رضى الله عنه: أن النبى صلى الله عليه وسلم نعى زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل أن يأتيهم خبرهم فقال: أخذ الراية زيد فأصيب ، ثم أخذ جعفر فأصيب ، ثم أخذ ابن رواحة – فأصيب وعيناه تدرفان – حتى أخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم
صحیح بخاری، کتاب المغازي، رقم : 4262.
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ، جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جارہے تھے کہ اب سیدنا زید رضی اللہ عنہ جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ، اب وہ شہید کر دیے گئے ، اب سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھا لیا ، وہ بھی شہید ہو گئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ) نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی ۔“

سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے آنسو

حدیث 17

وعن ابن عباس قال: أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ابنة له تقضى، فاحتضنها فوضعها بين يديه فماتت وهى بين يديه وصاحت أم أيمن فقال: يعني النبى صلى الله عليه وسلم : أتبكين عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فقالت: ألست أراك تبكي؟ قال: إني لست أبكي إنما هي رحمة إن المؤمن بكل خير على كل حال إن نفسه تنزع من بين جنبيه وهو يحمد الله عزوجل
سنن نسائی، کتاب الجنائز، رقم : 1842/4 ، مسند احمد : 268/1، 297، رقم: 2704,2412 ، مسند عبد بن حمید 593 ، شمائل ترمذی، رقم : 45-4، ص: 562,561 . یہ حدیث صحیح ہے۔
”اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی قریب المرگ تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑا اور اپنی گود میں اٹھایا تو اسی حالت میں فوت ہوگئی جب کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ہاتھوں میں تھی۔ ام ایمن چلا کر رونے لگیں تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روتی ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے نہیں دیکھ رہی ہوں؟ ارشاد فرمایا: میں رو نہیں رہا ہوں ، یہ تو رحمت کے آنسو ہیں ۔ بے شک مومن ہر حال میں خیر میں ہی ہوتا ہے جب اس کے پہلو سے اس کی روح پرواز کرتی ہے تو وہ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے ۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساری رات رونا

حدیث 18

وعن على قال: ما كان فينا فارس يوم بدر غير المقداد ولقد رأيتنا، وما فينا إلانائم ، إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت شجرة يصلي ويبكي حتى أصبح
مسند احمد: 125/1 ، سنن نسائی کبری ، رقم: 823، صحیح ابن خزیمه، رقم : 899 ۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سید نا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن سیدنا مقداد کے علاوہ ہمارے ساتھ کوئی بھی گھڑ سوار نہیں تھا ۔ ہم سے ہر شخص گہری نیند سویا ،سوائے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ساری رات اللہ کی عبادت کرتے اور روتے رہے۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر پر آنسو بہانا

حدیث 19

وعن البراء رضي الله عنه قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى جنازة ، فجلس على شفير القبر ، فبكى حتى بل الثرى ، ثم قال يا إخواني، لمثل هذا فأعدوا
سنن ابن ماجه ، كتاب الزهد، رقم : 4195 ، مسند احمد: 294/4، سلسلة الصحيحة، رقم : 1751 .
”اور سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگے حتی کہ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسوؤں سے تر ہو گئی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے میرے بھائیو! اس کے لیے (یعنی قبر کے لیے ) کچھ تیاری کر لو ۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ میں رونا

حدیث 20

وعن عبد الله بن عمرو حدثه، قال: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة، وقام الذين معه ، فقام قياما ، فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع ، ثم رفع رأسه ، وسجد فأطال السجود ، ثم رفع رأسه، وجلس فأطال الجلوس ، ثم سجد ، فأطال السجود ، ثم رفع رأسه وقام، فصنع فى الركعة الثانية مثل ما صنع فى الركعة الأولى من القيام، والركوع ، والسجود، والجلوس، فجعل ينفخ فى آخر سجوده من الركعة الثانية ويبكي، ويقول: لم تعدني هذا وأنا فيهم! لم تعدني هذا ونحن نستغفرك ، ثم رفع رأسه، وانجلت الشمس ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فخطب الناس، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله عز وجل- فإذا رأيتم كسوف أحدهما ، فاسعوا إلى ذكر الله عز وجل
سنن ابو داؤد، كتاب صلاة الإستسقاء رقم : 1194 ، سنن نسائی، کتاب الصلاة ، رقم : 1482 ، جامع الأصول: 181/6۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سید نا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ثقہ روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج کو گہن لگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھےاور نماز شروع کر دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر تک قیام کیا کہ یوں معلوم ہونے لگا کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں نہیں جائیں گے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں گئے تو اتنی دیر تک رہے کہ یو معلوم ہوا کہ اب آپ سجدہ میں نہیں جائیں گے ۔ سجدہ سے اٹھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم قعدہ میں اتنی دیر تک بیٹھے کہ یوں معلوم ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سجدہ میں نہ جائیں گے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم (دوسرے ) سجدہ میں گئے تو یوں محسوس ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر کو دوبارہ نہ اُٹھائیں گے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گہرا سانس لیا اور روتے ہوئے آف آف کر کے اللہ تعالیٰ سے کہا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جب تک میں ان لوگوں کے درمیان ہوں تو انھیں عذاب نہیں دے گا ؟ اے رب ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جب تک یہ لوگ تو بہ کرتے رہیں گے انھیں عذاب نہ دیا جائے گا ۔ اے رب ! ہم تجھ سے تو بہ کے طلب گار ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت نماز ختم کی ،اس وقت تک سورج گہن ختم ہو چکا تھا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اللہ کی تعریف بیان کی ، اطمینان کا سانس لیا اور فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، انھیں کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے گہن نہیں لگتا ۔ پس جب تم گہن لگتا دیکھو تو اللہ کی یاد میں مصروف ہو جاؤ۔“

سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنہ کا آنسو بہانا

حدیث 21

وعن عائشة رضي الله عنها ، قالت: قال أبو بكر رضي الله عنه حين حضر : أنظري كل شيء زاد فى مالي منذ دخلت فى هذه الإمارة فرديه إلى الخليفة من بعدي ، قالت: فلما مات نظرنا فما وجدنا زاد فى ماله إلا ناضكا كان يسقى بستانا له، وغلاما نوبيا كان يحمل صبيا له ، قالت: فأرسلت به إلى عمر رضي الله عنه قالت: فأخبرت أن عمر رضي الله عنه بكى ، وقال: رحم الله أبا بكر لقد أتعب من بعده تعبا شديدا
سنن الكبرى للبيهقى : 353/6، طبقات ابن سعد 196/3 ، 197۔ اس کی سند صحیح ہے۔
” اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ میں جب سے مسلمانوں کے امر کا والی ہوا ہوں ان کا ایک دینار اور ایک درہم بھی نہیں کھایا، ہاں ہم نے ان کے موٹے آٹے سے اپنا پیٹ بھرا ہے ، اور ان کے موٹے کپڑے سے اپنی پیٹھ چھپائی ہے ، میرے پاس مسلمانوں کے مالِ غنیمت میں سے نہ تو تھوڑا ہے اور نہ زیادہ ۔ سوائے حبشی غلام کے اور پانی لانے والے اونٹ کے اور سوائے اس پرانی چادر کے ، جب میں مرجاؤں تو ان کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ کر دینا اور ان سے برات طلب کر لینا ۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا ، جب قاصد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہاں تک روئے کہ ان کے آنسوزمین پر بہنے لگے اور فرمایا: اللہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، اُنھوں نے اپنے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا ۔“

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا آنسو بہانا

حدیث 22

وعن هانيء ، مولى عثمان قال: كان عثمان بن عفان، إذا وقف على قبر ، يبكي . حتى يبل لحيته . فقيل له: تذكر الجنة والنار ، ولا تبكي . وتبكي من هذا؟ قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن القبر أول منازل الآخرة ، فإن نجا منه فما بعده أيسر منه وإن لم ينج منه . فما بعده أشد منه، قال: وقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ما رأيت منظرا قط إلا والقبر أفضع منه
سنن ابن ماجه رقم : 4267 سنن ترمذی، کتاب الزهد، رقم : 3308۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ ڈاڑھی تر ہو جاتی ۔کسی نے کہا: آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو آپ کو رونا نہیں آتا اور اس ( قبر ) کو دیکھ کر روئے ہیں ۔ (اس کی کیا وجہ ہے؟) اُنھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قبر آخرت کی پہلی منزل ہے ۔ اگر آدمی اس سے نجات پا گیا تو بعد والے مراحل اس سے آسان ہوں گے ۔ اگر اس سے نجات نہ پاسکا تو بعد کے مراحل اس سے زیادہ دشوار ہوں گے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے جو بھی منظر کبھی دیکھا ہے، قبر اس سے زیادہ ہولناک ہے ۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرا کر دعا کرنا

حدیث 23

وعن أنس رضي الله عنه : أن رجلا جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة هو يخطب بالمدينة . فقال: قحط المطر فاستسق ربك ، فنظر إلى السماء وما نرى من سحاب فاستسقى ، فنشأ السحاب بعضه إلى بعض ، ثم مطروا حتى سالت متاعب المدينة، فما زالت إلى الجمعة المقبلة ما تقلع ، ثم قام ذلك الرجل أو غيره والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب فقال: غرقنا، فادع ربك يحبسها عنا ، فضحك ثم قال: اللهم حوالينا ولا علينا، مرتين أو ثلاثا ، فجعل السحاب يتصدع عن المدينة يمينا وشمالا يمطر ما حوالينا ولا يمطر منها شيء، يريهم الله كرامة نبيه وإجابة دعوته
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم : 6093 .
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں خطبہ دے رہے تھے ۔ اس نے عرض کی : بارش کا قحط پڑ گیا ہے ، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے بارش کی دعا کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا ۔ ہمیں کہیں بھی بادل نظر نہیں آرہے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے بارش کی دعا کی تو بادل اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف جانے لگے ، پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ طیبہ کے نالے بہنے لگے ۔ اگے جمعے تک اسی طرح بارش ہوتی رہی اور وہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی ۔ آئندہ جمعہ وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ، اس نے کہا: ہم ڈوب گئے ، اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ اب بارش بند کر دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے پھر دعا کی : ”اے اللہ ! ہمارے اردگرد بارش ہو ، ہم پر نہ برسے ۔“ دو یا تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ، چنانچہ مدینہ طیبہ سے دائیں بائیں بادل چھٹنے لگے ۔ ہمارے ارد گرد دوسرے مقامات پر بارش ہوتی تھی اور ہمارے ہاں بارش یکدم بند ہوگئی ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور دعا کی قبولیت کا منظر دکھایا۔“

روئیں ضرور مگر دور جاہلیت والا نہیں

حدیث 24

وعن عبد الله ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ليس منا من شق الجيوب، وضرب الخدود ، ودعا بدعوة الجاهلية
سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 999 سنن ابن ماجه ، رقم : 1845 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو گریبان پھاڑے، چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی ہانک پکارے ہم میں سے نہیں۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گناہ گار کی بات پر مسکرانا

حدیث 25

وعن أبى ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إني لأعلم آخر رجل يدخل الجنة، وآخر رجل يخرج من النار؛ رجل يؤتى بالرجل يوم القيامة ، فيقال: اعرضوا عليه صغار ذنوبه ويخبا عنه كبارها فيقال له: عملت يوم كذا وكذا، كذا وكذا، وهو مقر لا ينكر وهو . ينكر وهو مشفق من كبارها ، فيقال: أعطوه مكان كل سيئة عملها حسنة . فيقول إن لي ذنوبا ما أراها ههنا . قال أبوذر: فلقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواحده
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم : 467 ، سنن ترمذي، أبواب صفة جهنم : 2596/4 ، مسند أحمد : 157/5 ، 170 .
”اور حضرت ابوذر (غفاری) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا اور اس شخص کو بھی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص دربار الہی میں پیش کیا جائے گا تو کہا جائے گا کہ اس کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کرو، اور بڑے گناہ اس سے پوشیدہ رکھے جائیں، پھر کہا جائے گا، تو نے فلاں دن فلاں اور فلاں عمل کیے تھے ؟ تو وہ ان اعمال کا اقرار کرے گا، انکار نہ کرے گا ، اور وہ اپنے بڑے بڑے گناہوں سے خوف زدہ ہوگا تو کہا جائے گا اس کے ہر گناہ کے بدلے میں جو اس نے کیا ہے ایک نیکی دے دو ۔ (جب یہ صورتِ حال دیکھے گا تو وہ کہے گا : میرے کچھ اور گناہ بھی ہیں جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت مبارک نظر آئے ۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ کا انداز

حدیث 26

وعن جرير بن عبد الله قال: ما حجبني رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم منذ أسلمت ولا رآني إلا ضحك
صحيح بخاری، کتاب مناقب الأنصار ، رقم : 3822/7 ، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابة ، رقم: 134/4 ، برقم : 1925، سنن ترمذی ، رقم: 3820/5، سنن ابن ماجه ، رقم: 358/4، شمائل ترمذی، رقم : 35-5، ص: 445.
”اور سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے کبھی منع نہیں فرمایا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مجھے دیکھتے تو ہنس پڑتے ۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے تو آپ کے دندان مبارک نظر آتے

حدیث 27

وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إني لأعرف أخر أهل النار حروجا رجل يخرج منها زحفا فيقول: يا رب قد أخذ الناس المنازل . قال : فيقال له: انطلق إلى الجنة فادخل الجنة ، قال: فيذهب ليدخل فيجد الناس قد أخذوا المنازل ، فيرجع فيقول: يا رب قد أخذ الناس المنازل ، قال: فيقال له: أتذكر الزمان الذى كنت فيه؟ فيقول: نعم ، فيقال له: تمن ، قال: فيتمنى ، فيقال له: فإن لك الذي تمنيت وعشرة أضعاف الدنيا، قال: فيقول: أتسخر بي وأنت الملك . قال : فلقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواحده
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم : 6571/11، وكتاب التوحيد : 7511/14، صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 173، سنن ترمذی: 2595/4، سنن ابن ماجه ، کتاب الزهد رقم 4339/2، مسند احمد، رقم: 3595 شمائل ترمذی رقم 35-7، ص: 447,446 .
”اور سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: یقیناً میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا ، وہ ایسا آدمی ہوگا جو سرینوں کے بل گھسیٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا ، اس کو حکم ہوگا کہ جاؤ جنت میں چلے جاؤ ۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص جنت میں داخل ہونے کے لیے جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ جنت میں سب لوگوں نے اپنے اپنے ٹھکانوں پر رہائش اختیار کی ہوئی ہے ۔ وہ شخص لوٹ کر آئے گا اور کہے گا: اے پروردگار ! وہاں تو سب لوگوں نے اپنی اپنی جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ پھر اس سے کہا جائے گا کیا تو دنیا کے اس زمانے کو یاد کرتا ہے جس زمانے میں تو وہاں تھا ( کہ دنیا کتنی بڑی تھی ) ؟ وہ عرض کرے گا: ہاں پروردگار! مجھے وہ وقت یاد ہے ۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ کوئی آرزو کرو ، پس وہ آرزو کرے گا ۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ تمھیں تمھاری آرزو کے مطابق بھی دیا اور پوری دنیا سے دس گنا زیادہ بھی عطا کیا۔ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! کیا آپ میرے ساتھ دل لگی کرتے ہیں حالانکہ آپ (بادشاہوں کے ) بادشاہ ہیں؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی یہ بات بیان فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پر ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے۔“

سید نا علی رضی اللہ عنہ کی مسکراہٹ کا انوکھا انداز

حدیث 28

وعن على بن ربيعة قال: شهدت عليا رضي الله عنه أتي بدابة ليركبها ، فلما وضع رجله فى الركاب قال: بسم الله فلما استوى على ظهرها قال: الحمد لله . ثم قال: سبحن الذى سخر لنا هذا و ما كنا له مقرنين و إنا إلى ربنا لمنقلبون ثم قال: الحمد لله ، ثلاثا الله أكبر ، ثلاثا ، ثم قال: سبحانك إني قد ظلمت نفسي فاغفرلي ، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت ، ثم ضحك. فقلت: من أى شيء ضحكت يا أمير المؤمنين؟ قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع كما صنعت ، ثم ضحك، فقلت: ن أى شيء ضحكت يا رسول الله؟ قال: إن ربك ليعجب من عبده إذا قال: رب اغفر لي ذنوبي ، إنه لا يغفر الذنوب أحد غيره
سنن ابو داؤد، كتاب الجهاد ، رقم : 2602/3 ، سنن ترمذی ، رقم: 3446/5، مسند احمد : 115,97/1 ، مستدرك حاكم: 99,98/2، شمائل ترمذی ، رقم: 35-8 ، ص:447 448۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور علی بن ربیعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سید نا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک سواری کا جانور آپ کے لیے لایا گیا تا کہ آپ اس پر سوار ہوں ، انھوں نے رکاب میں پاؤں رکھا تو بسم اللہ کہا، اور جب سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو الحمد للہ کہا پھر یہ دعا پڑھی: کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے اس کو مسخر کر دیا ، ورنہ ہم اسے مسخر نہ کر سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ پھر تین مرتبہ الحمد للہ ، تین بار اللہ اکبر کہا اور یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو پاک ہے میں نے ہی اپنے آپ پر ظلم کیا مجھے معاف فرما دے، بلاشبہ تیرے علاوہ گناہوں کو کوئی معاف نہیں کرتا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ی مسکرا دیئے، میں نے عرض کیا : امیر المؤمنین ! آپ مسکرائے کیوں ہیں؟ فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا اُنھوں نے بھی اسی طرح کیا تھا جیسا کہ میں نے کیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے ، تو میں نے بھی عرض کیا تھا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مسکرائے کیوں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ تیرا رب اپنے بندے پر اس وقت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب، میرے گناہ معاف کر دے، تیرے سوا کوئی میرے گناہ معاف کرنے والا نہیں۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ سے رونے کی آواز آنا

حدیث 29

وعن عبد الله بن الشخير ، قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي ولجوفه أزيز كأزيز المرجل من البكاء
سنن ابو داود كتاب الصلاة : 904/1 ، سنن نسائی، کتاب السهو : 1213/3، مسند احمد: 25/4، صحيح ابن خزيمة: 52/2، مسند ابي يعلى :موصلی +256/3 ، رقم 1596 ، مستدرك حاكم : 264/1، سنن الكبرى بيهقي: 251/2 شرح السنة : 245/3 ، صحیح ابن حبان : 277/2 شمائل ترمذی 1-45، ص: 557,556 ۔ امام حاکم ، ابن حبان ، ابن خزیمہ اور محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سید نا عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کی آواز اس طرح آئی تھی جیسا کہ ہنڈیا کے جوش مارنے کی آواز ہوتی ہے ۔“

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ایک ساتھ رونا اور پھر ہنسنا

حدیث 30

وعن عائشة رضي الله عنه قالت: دعا النبى صلى الله عليه وسلم فاطمة عليها السلام فى شكواه الذى قبض فيه ، فسارها بشيء ، فبكت ، ثم دعاها فسارها بشيء ، فضحكت، فسألنا عن ذلك؟ فقالت: سارني النبى صلى الله عليه وسلم أنه يقبض فى وجعه الذى توفي فيه فبكيت ، ثم سارني فأخبرني أنى أول أهله يتبعه فضحكت
صحیح بخاری کتاب المغازی، رقم : 4433، 4434.
” اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں، پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں۔ پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی، میں یہ سن کر رونے لگی۔ دوسری مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسی تھی۔“

خوف الہی سے رونے کی فضیلت

حدیث 31

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يلج النار رجل بكى من خشية الله حتى يعود اللبن فى الضرع ، ولا يجتمع غبار فى سبيل الله ودخان جهنم
سنن ترمذی ابواب فضائل الجهاد، رقم : 1633 ، سنن نسائی، کتاب الجهاد، رقم : 3109، سنن ابن ماجة، كتاب الجهاد، رقم : 2774، مسند احمد : 505/2۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ڈر سے رونے والا جہنم میں داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ دودھ تھن میں واپس لوٹ جائے، (اور یہ محال ہے ) اور جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے۔“

حدیث 32

وعن عبد الله بن عمرو قال: انكسفت الشمس يوما على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي حتى لم يكد يركع ، ثم ركع فلم يكد يرفع رأسه ، ثم رفع رأسه فلم يكد أن يسجد ، ثم سجد فلم يكد أن يرفع رأسه ، ثم رفع رأسه فلم يكد أن يسجد ، ثم سجد فلم يكد يرفع رأسه ، فجعل ينفخ ويبكي ويقول: رب ألم تعدنى أن لا تعذبهم وأنا فيهم؟ رب ألم تعدنى أن لا تعذبهم وهم يستغفرون ونحن نستغفرك؟ فلما صلى ركعتين انجلت الشمس ، فقام فحمد الله تعالى، وأثنى عليه ، ثم قال: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته ، فإذا انكسفا فافزعوا إلى ذكر الله تعالى
سنن ابو داؤد، کتاب الصلوة : 1193/1، سنن نسائی، کتاب الكسوف رقم 1495، مسند احمد 198,188,163,159/2، صحیح ابن خزيمة 901، 1389، 1392 ، 1393، علامہ احمد شاکر نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے، اس میں ایک رکوع کا ذکر ہے حالانکہ متفق علیہ روایات میں ایک سے زائد رکوعات کا ذکر ہے اس بناء پر ایک رکوع والی روایت کو باوجود صحیح السند ہونے کے شاذ کہا جائے گا۔ شمائل ترمذی، رقم: 3/45، ص: 560,559.
” اور سید نا عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دن سورج گرہن ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز شروع کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر قیام فرمایا کہ گویا رکوع کرنے کا ارادہ ہی نہیں ، اور پھر رکوع اتنا لمبا کیا کہ گویا اس سے اُٹھنے کا ارادہ ہی نہیں ، پھر سر مبارک اٹھایا تو قومہ میں بھی اتنی دیر کھڑے رہے کہ قریب نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو قریب نہیں تھا کہ سجدہ سے سر مبارک اُٹھا ئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے سر مبارک اُٹھایا تو اتنا طویل جلسہ کیا کہ قریب نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرا سجدہ کریں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا سجدہ بھی اتنا طویل کیا کہ قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے سرمبارک اُٹھا ئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران آہیں بھرتے اور روتے رہے اور فرماتے : اے میرے پرودگار! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ جب میں ان میں موجود ہوں تو عذاب نہیں کرے گا ؟ اے میرے پروردگار ! کیا تو نے وعدہ نہیں کیا کہ جب تک یہ تجھ سے استغفار کرتے رہیں گے تو ان کو عذاب نہیں دے گا ؟ اور ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: یقیناً سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے انھیں گرہن نہیں لگتا جب یہ گہنا جائیں تو فوراً اللہ تعالیٰ عزوجل کی یاد کی طرف دوڑو ۔“

خندہ پیشانی سے ملنے کی فضیلت

حدیث 33

وعن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كل معروف صدقة ، وإن من المعروف أن تلقى أخاك بوجه طلق، وأن تفرغ من دلوك فى إناء أخيك
سنن ترمذی ، ابواب البر والصلة، رقم : 1970، مسند أحمد : 344/3۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
” اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بھلائی صدقہ ہے اور بھلائی یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھ ملو اور اپنے ڈول سے اس کے ڈول میں پانی ڈال دو ۔ “

بنده تو بہ کرے تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے

حدیث 34

وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الله عز وجل أفرح بتوبة أحدكم منه بضالته ، إذا وجدها
سنن ابن ماجه ، کتاب الزهد، رقم : 4247، صحیح مسلم، كتاب التوبة، رقم : .2675/2 ۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی تمھاری توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کوئی اپنی گم شدہ سوار پا کر خوش ہوتا ہے۔“

غیر شرعی طور پر ہنسنے اور ہنسانے پر وعید

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ‎﴿٦٠﴾‏
(53-النجم:60)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔“

حدیث 35

وعن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده، قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: ويل للذى يحدث بالحديث ليضحك به القوم فيكذب ، ويل له ويل له
سنن ترمذی، ابواب الزهد، رقم : 2315 ، سنن أبوداؤد، كتاب الأدب، رقم : 4990، مسند احمد : 5/3 ۔ محدث البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
”اور حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے: تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتا ہے کہ لوگ سن کر ہنسیں ، حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔ “

حدیث 36

وعن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبى صلى الله عليه وسلم تلا قول الله عز وجل فى إبراهيم﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ﴾ (14-إبراهيم:36) الآية وقال عيسى عليه السلام ﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (5-المائدة:118) فرفع يديه وقال: اللهم أمتى أمتي وبكى فقال الله عز وجل يا جبريل اذهب إلى محمد وربك أعلم فسله ما يبكيك فأتاه جبريل عليه السلام فسأله فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم بما قال وهو أعلم فقال الله يا جبريل اذهب إلى محمد فقل إنا سنرضيك فى أمتك ولا نسوؤك
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب دعاء النبي صلى الله عليه وسلم لأمته وبكائه وشفعة عليهم، رقم : 499.
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تلاوت فرمائی: ”اے میرے رب ! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا، تو جس نے میری پیروی کی، وہ میرا ہے (میرے راستہ پر ہے) اور جس نے میری نافرمانی کی تو ، تو بے شک بخشنے والا مہربان ہے۔“ (ابراہیم: 36) اور آپ نے عیسی علیہ السلام کے قول کی تلاوت فرمائی: ”اور اگر تو انہیں عذاب دے گا تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف فرمائے گا، تو ، تو بلاشبہ غالب حکمت والا ہے۔“ (المائدہ: 118) اور آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی: اے اللہ ! میری امت، میری امت اور آپ رو دیئے ، تو اللہ تعالیٰ نے جبریل کو حکم دیا، اے جبریل! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ، اور ان سے پوچھو (حالانکہ اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے ) کیوں رو رہے ہو؟ تو آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات اسے بتائی، اور اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبریل! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جا کر، انہیں بتا دو، ہم تمہیں تمہاری امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔ “

اسلام میں نوحہ کرنے کی سزا

حدیث 37

وعن أبى مالك الأشعري، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: النائحة إذا لم تتب قبل موتها ، تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران، ودرع من جرب
صحيح مسلم، کتاب الجنائز، رقم : 2160 .
” اور سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: نوحہ کرنے والی عورت اگر مرنے سے پہلے تو بہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن اس طرح کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول کا کرتہ ، اور خارش زرہ ہوگی۔“

کم ہنسو زیادہ روؤ

حدیث 38

وعن أبى ذر قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : إني أرى ما لا ترون، وأسمع ما لا تسمعون، إن السماء أطت ، وحق لها أن تبط ما فيها موضع أربع أصابع إلا وملك واضع جبهته ساجدا لله ، والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا ، وما تلذذتم بالنساء على الفرشات ولخرجتم إلى الصعدات تجأرون إلى الله، والله لوددت أني كنت شجرة تعضد
سنن ترمذی ، کتاب الزهد، رقم: 2312، سنن ابن ماجه ، رقم : 4190۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تمھیں نظر نہیں آتا ، اور میں وہ کچھ سنتا ہوں جو تمھیں سنائی نہیں دیتا۔ آسمان پر چراتا ہے اور اس کا حق ہے کہ چر چرائے۔ اس میں چار اُنگلیوں کی جگہ بھی خالی نہیں مگر ( بلکہ ہر جگہ ) کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ کوسجدہ کر رہا ہے۔ قسم ہے اللہ کی ! اگر تمھیں وہ کچھ معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو تم تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ، اور بستروں پر عورتوں سے لطف اندوز نہ ہوسکو اور تم بآواز بلند اللہ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاؤ قسم ہے اللہ کی ! میرا جی چاہتا ہے (کاش!) میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا۔“

حدیث 39

وعن أنس قال: قال أبو بكر رضي الله عنه ، بعد وفاة رسول الله ، لعمر : انطلق بنا إلى أم أيمن نزورها ، كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها ، فلما انتهينا إليها بكت ، فقالا لها ما يبكيك؟ ما عند الله خير لرسوله صلى الله عليه وسلم . فقالت: ما أبكي أن لا أكون أعلم ان ما عند الله خير لرسوله صلى الله عليه وسلم ، ولكن أبكي أن الوحي قد انقطع من السماء ، فهيجتهما على البكاء ، فجعلا ينكيان معها
صحيح مسلم، کتاب الفضائل ، رقم : 6318 .
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمارے ساتھ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے پاس چلو ، ہم ان کی زیارت کریں ۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے ۔ پس ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ روپڑیں ۔ انھوں نے کہا: کیوں روتی ہو؟ کیا تم نہیں جانتیں کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زیادہ بہتر ہے ۔ تو اس پر سیدہ اُم ایمن رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اس لیے نہیں رو رہی ہوں کہ میں یہ بات نہیں جانتی ہوں لیکن میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ۔ پس (اس بات نے ) ان دونوں کو بھی رونے پر مجبور کر دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے ۔“

حدیث 40

وعن أبى ذر يقول: قام النبى صلى الله عليه وسلم بآية حتى أصبح يرددها ، والآية :﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴾‏
سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلوات والسنة فيها رقم 1350، مسند احمد 149/5۔ محدث البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
”اور سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے : اگر تو انھیں عذاب دے تو تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف کرے تو تو غالب حکمت والا ہے۔“ (المائدة: 118)
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1