خواتین کی نماز اور ان کا لباس قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر: مقبول احمد سلفی، جدہ دعوہ سنٹر، سعودی عرب

خواتین کی نماز اور ان کا لباس

عام عورتوں کو نماز پڑھنے کے سلسلے میں لباس سے متعلق مختلف قسم کے تردد کا سامنا رہتا ہے۔ بنابرایں اس تحریر میں اختصار کے ساتھ اس مسئلے کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایک عورت کس قسم کا لباس پہن کر نماز ادا کرے گی۔

لباس سے متعلق بعض فرق

اس سے پہلے کہ خواتین کی نماز کے لباس کی وضاحت کی جائے، لباس سے متعلق بعض اہم فرق کو پہلے بیان کیا جاتا ہے تاکہ بعض متفرق مسائل کا اصل موضوع سے فرق واضح رہے۔

پہلا مسئلہ:

مردوں اور عورتوں کی نماز کے لباس میں فرق ہے۔ نیز مرد ایک ساتر لباس میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے۔
اس بات کی دلیل یہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يصلي احدكم فى الثوب الواحد ليس على عاتقيه منه شيء
(صحيح مسلم: 516)
ترجمہ: ”تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر اس کا کوئی حصہ نہ ہو۔“
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک ہی کپڑا ہو تو اس میں نماز پڑھ سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اس کپڑے سے نمازی اپنے ستر اور دونوں کندھوں کو ڈھک لے یعنی ستر کے ساتھ مردوں کے لیے کندھا بھی ڈھکنا ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا ثابت ہے اور جب ایک کپڑا چادر کی شکل میں ہو تو اس کے استعمال کی کیفیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح منقول ہے۔
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى ثوب واحد ملتحفا مخالفا بين طرفيه زاد عيسى بن حماد فى روايته قال على منكبيه
(صحيح مسلم: 517)
ترجمہ: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ نے اسے لپیٹا ہوا تھا اور اس کے دونوں کناروں کو مخالف سمت میں ڈالا ہوا تھا۔ عیسیٰ بن حماد نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا کہ اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔“
حدیث سے واضح ہے کہ دونوں بغل کے نیچے سے گزار کر دائیں کنارا بائیں کندھے پر اور بائیں کنارا دائیں کندھے پر رکھ لے یا اس میں گردن کے پاس کانٹھ لگا لے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستر اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہبند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنہیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔
(صحيح البخاري: 442)
اور اگر ایک کپڑا قمیص کی شکل میں سلا ہوا یا بٹن لگا ہو تو نمازی اسے کرتے کی طرح پہن لے جیسا کہ حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
قلت يا رسول الله اني رجل اصيد افاصلي فى القميص الواحد قال نعم وازرره ولو بشوكة
(صحيح أبي داود: 632)
ترجمہ: ”میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں شکاری ہوں، کیا میں ایک کرتے (قمیص) میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اسے ٹانک لیا کرو (بٹن لگا لیا کرو)، خواہ کسی کانٹے سے ہی سہی۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا:
قام رجل الى النبى صلى الله عليه وسلم فسأله عن الصلاة فى الثوب الواحد فقال اوكلكم يجد ثوبين ثم سأل رجل عمر فقال اذا وسع الله فاوسعوا جمع رجل عليه ثيابه صلى رجل فى ازار ورداء فى ازار وقميص فى ازار وقباء فى سراويل ورداء فى سراويل وقميص فى سراويل وقباء فى تبان وقباء فى تبان وقميص قال واحسبه قال فى تبان ورداء
(صحيح البخاري: 365)
ترجمہ: ”ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم سب کے پاس دو کپڑے ہو سکتے ہیں؟ پھر (یہی مسئلہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا تو انہوں نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں فراغت دی ہے تو تم بھی فراغت کے ساتھ رہو۔ آدمی کو چاہیے کہ نماز میں اپنے کپڑے اکٹھا کر لے۔ کوئی آدمی تہبند اور چادر میں، کوئی تہبند اور قمیص میں، کوئی تہبند اور قباء میں، کوئی پاجامہ اور چادر میں، کوئی پاجامہ اور قمیص میں، کوئی پاجامہ اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قمیص میں، اور مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جانگیا اور چادر میں نماز پڑھے۔“
اس حدیث سے پوری طرح واضح ہے کہ لباس کی تنگی ہو تو ایک لباس میں بھی نماز جائز ہے بشرطیکہ ساتر ہو، اور لباس کی تنگی نہ ہو تو کم از کم دو کپڑوں میں نماز ادا کرے۔ ایک کپڑا بطور قمیص اور دوسرا بطور تہبند یا ازار، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جسم کے اوپری اور نچلے حصے کے لیے دو الگ الگ کپڑوں کا ذکر کیا ہے تاکہ نیچے پیر تک اور اوپر کندھے تک ڈھک جائے۔

دوسرا مسئلہ:

عورت کی نماز کا لباس اور عام حالات میں پہنے جانے والے لباس میں فرق ہے یعنی جس لباس میں عورت کا گھر میں رہنا جائز ہے وہ الگ لباس ہے اور نماز کا لباس الگ ہے۔ عورت کے ان دونوں لباسوں میں فرق ہے۔ مردوں کے سلسلے میں بھی عام لباس اور ان کی نماز کا لباس مختلف ہے۔ جیسے مرد عام حالات میں کندھا کھول سکتا ہے مگر نماز میں اسے ڈھک کر نماز پڑھنا ہے۔ عورت اپنے گھر میں محارم کے سامنے سر اور بال کھول سکتی ہے مگر نماز میں سر اور بال ڈھکنا ضروری ہے۔ اسی طرح عورت نماز میں چہرہ کھول سکتی ہے مگر یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ عام حالات میں یا اجنبی مردوں کے پاس بھی چہرہ کھول سکتی ہے۔

تیسرا مسئلہ:

عورت اگر گھر میں نماز پڑھتی ہے تو چہرہ کھول کر نماز پڑھ سکتی ہے لیکن جب وہ مسجد جائے گی تو اس کا لباس پھر وہ ہوگا جو گھر سے نکلنے والا لباس عورتوں کو بتایا گیا ہے یعنی اپنے آپ کو چہرہ سمیت مکمل طور پر ڈھک کر گھر سے نکلنا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو سراپا پردہ کہا ہے۔

عورت اور لباس

مذکورہ بالا چند فرق کو نظر میں رکھنے کے بعد اب عورتوں کا عمومی لباس دیکھتے ہیں۔ پتہ لگاتے ہیں کہ عہد رسالت میں خواتین کے استعمال کا عام لباس کیا تھا، وہ گھر میں کیا پہنتی تھیں اور گھر سے نکلتے وقت کیا پہنتی تھیں تاکہ اس بات سے نماز کے لباس کو سمجھنے میں کچھ تعاون مل جائے۔
ھر کی خواتین گھر میں عام طور سے بیک وقت دو کپڑے استعمال کرتی تھیں۔ ایک کپڑا قمیص ہوتا جس سے پورے بدن کو ڈھکا جاتا تھا اور دوسرا کپڑا خمار (دوپٹہ) ہوتا جس سے سر خصوصاً سینے کو ڈھکا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں دو احادیث پیش کرتا ہوں۔
❀ پہلی حدیث : صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کے اسلام لانے کا قصہ مذکور ہے۔ اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشرکہ ماں کی شکایت لے کر گئے اور ان کے حق میں آپ سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے ان کی ماں کے لیے ہدایت کی دعا کی۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر واپس آتے ہیں تو گھر کا دروازہ بند تھا۔ والدہ نے بیٹے کے قدموں کی آہٹ سن کر کہا: رک جاؤ، ماں غسل کر رہی تھی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
فاغتسلت ولبست درعها وعجلت عن خمارها ففتحت الباب ثم قالت يا ابا هريرة اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله
(صحيح مسلم: 2491)
ترجمہ: ”میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابو ہریرہ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
اس حدیث میں درع اور خمار کا ذکر ہے یعنی درع قمیص کو کہتے ہیں اور خمار دوپٹے کو، عورتوں میں یہ عام رواج کا کپڑا تھا۔
❀ دوسری حدیث:
عن عائشة رضي الله عنها قالت : يرحم الله نساء المهاجرات الأول؛ لما أنزل الله:﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ﴾ (24-النور:31)، شققن مروطهن فاختبرن بها .
(صحيح البخاري: 4758)
ترجمہ: ”اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے پہلی ہجرت کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی: ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ﴾ (24-النور:31)
یعنی ”اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں‘ تاکہ سینہ اور گلا وغیرہ نہ نظر آئے، تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر ان سے دوپٹے بنا لیے۔ “
حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے عورتوں میں ایک لباس ہوا کرتا تھا مگر جب پردے کا حکم نازل ہوا تو عورتوں نے اس ایک کپڑے کو پھاڑ کر دوپٹہ بنا لیا تاکہ سر، گردن، سینہ اور گریبان وغیرہ ڈھک سکیں۔
جب عورتیں گھر سے باہر نکلتیں تو عام طور سے جلباب کا استعمال کرتی تھیں۔ جلباب ایک بڑی چادر کو کہتے ہیں جو سر سے پیر تک ڈھک دیتی ہے۔ عید کی نماز سے متعلق حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عورتوں کو عیدگاہ لے کر نکلنے کا حکم دیا تھا۔ اس حدیث میں ہے:
قالت امراة يا رسول الله احدانا ليس لها جلباب قال لتلبسها صاحبتها من جلبابها
(صحيح البخاري: 351)
ترجمہ: ”ایک عورت نے کہا: یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لیے) چادر (جلباب) نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ساتھی عورت اپنی چادر (جلباب) کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔“
گویا یہ گھر سے نکلنے کا عام رواج تھا کہ عورتیں بڑی چادر پہن کر اپنے گھروں سے باہر نکلتی تھیں۔ بلکہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر سے نکلتے وقت عورتیں برقع یا نقاب اور دستانہ بھی لگاتی تھیں۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو احرام میں نقاب اور دستانہ لگانے سے منع فرمایا ہے:
ولا تنتقب المراة المحرمة ولا تلبس القفازين
(صحيح البخاري: 1838)
ترجمہ: ”اور احرام کی حالت میں عورتیں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں۔“
گھر سے نکلتے وقت عورتیں جہاں چہرہ اور ہاتھ سمیت پورا جسم ڈھک کر نکلتی تھیں، وہیں ان کے لباس کا دامن اس قدر طویل ہوتا تھا کہ پیر بھی چھپ جاتا، بلکہ کپڑا زمین سے گھسٹتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم لامهات المؤمنين فى الليل جبرا ثم استزدنه فزادهن شبرا فكن يرسلن الينا فنذرع لهن ذراعا
(ابوداؤد: 4119، صححه الألباني)
ترجمہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہما کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی۔ چنانچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔“

عورت اور دوپٹہ

چونکہ عورت سراپا پردہ ہے، اسے ہمیشہ کپڑے کا خیال رکھنا چاہیے اور گھر میں ہوتے ہوئے بھی صحیح طور پر پردہ کرنا چاہیے اور گھر سے نکلتے وقت عہد رسالت کی خواتین کی طرح باپردہ نکلنا چاہیے۔ آج کل دیکھنے کو ملتا ہے کہ عورتیں گھر میں باریک یا چھوٹا لباس پہنتی ہیں جس سے پردہ نہیں ہوتا اور گھر میں دوپٹہ نہیں لگاتیں۔ سوچتی ہیں کہ گھر میں بیٹا، باپ یا بھائی ہی تو ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عورت محارم کے سامنے سر، بال، گردن اور ہاتھ و پیر کھلا رکھ سکتی ہے، تاہم گھر میں بھی اپنے محارم کے سامنے دوپٹے کا استعمال ضروری ہے تاکہ سینہ اور گریبان کو صحیح سے چھپا سکے۔ اور اسی طرح محارم کے سامنے ایسے باریک یا چست یا چھوٹے کپڑے بھی نہیں پہن سکتی جو محارم سے چھپانے والے ستر کو نہ چھپا سکیں۔ اور اگر غیر محرم وہاں ہو تو چہرہ بھی ڈھک کر رکھنا ہے۔ المہم، عورت گھر میں بھی دوپٹہ کا استعمال کرے گی اور اپنے سینہ و گریبان کو ڈھک کر رکھے گی۔ اگر گھر میں صرف شوہر یا عورت اکیلی ہو تو بغیر دوپٹے کے بھی رہ سکتی ہے کیونکہ عورت کا اپنے شوہر سے کوئی پردہ نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ دوپٹہ مومن عورت کی شان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنتی عورت بھی دوپٹہ استعمال کرے گی، «سبحان الله». نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولو ان امراة من نساء اهل الجنة اطلعت الى الارض لاضاءت ما بينهما ولملات ما بينهما ريحا ولنصيفها يعني الخمار خير من الدنيا وما فيها
(صحيح البخاري: 6567)
ترجمہ: ”اور اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت روئے زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے تو آسمان سے لے کر زمین تک منور کر دے اور ان سب کو خوشبو سے بھر دے اور اس کا دوپٹہ دنیا و ما فیہا سے بڑھ کر ہے۔“
اس لیے مسلم بہنو، دوپٹہ ہر حال میں ساتھ رکھو، بھلے گھر میں ہی رہو، اور جب گھر سے نکلو تو جس طرح صحابیات رضی اللہ عنہما پورے پردے میں گھر سے نکلتی تھیں، اسی طرح باہر نکلا کرو، خواہ نماز کے لیے کیوں نہ نکلو۔

بالغہ عورت کی نماز اور دوپٹہ

عورت کے لیے دوپٹہ شان بھی ہے اور نماز کے لیے ضروری حصہ بھی ہے۔ جب عورت گھر میں نماز پڑھے گی تو قمیص کے ساتھ ہر حال میں دوپٹہ کا استعمال کرے گی اور دوپٹہ بھی چھوٹا یا باریک نہ ہو بلکہ سر کے پورے حصے کو چھپاتا ہو یعنی نماز پڑھنے والی عورت دوپٹہ کے ساتھ سر، اس کے بال، کان، گردن، سینہ اور گریبان ڈھکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يقبل الله صلاة حائض الا بخمار
(صحيح أبي داود: 641)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ حائضہ یعنی (بالغ) عورت کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں فرماتا۔“

عورت کی نماز ایک لباس میں

اسلام میں مجبوری کی گنجائش ہے۔ اس کا لحاظ کرتے ہوئے اگر کسی عورت کے پاس صرف ایک کپڑا ہو جو سر سے پیر تک ڈھک دیتا ہو تو مجبوری میں عورت ایک کپڑے میں بھی نماز ادا کر سکتی ہے، جیسے اوپر مردوں کے تعلق سے آپ نے پڑھا ہے کہ مرد بھی مجبوری میں ایک کپڑے میں نماز ادا کر سکتا ہے، تاہم ضروری ہے کہ کندھا ڈھکا ہوا ہو۔
عورتوں کے ایک لباس میں نماز ہونے سے متعلق صحیح بخاری میں کتاب الصلاۃ کے تحت امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے: باب فى كم تصلي المرأة فى الثياب یعنی باب: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟
اس باب کے تحت پہلے امام بخاری نے عکرمہ کا قول ذکر کیا:
وقال عكرمة لو وارت جسدها فى ثوب لاجز منه
ترجمہ: ”اور عکرمہ نے کہا کہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے۔“
امام بخاری یہ قول ذکر کر کے بتانا چاہتے ہیں کہ عورت ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے جسم کو پوری طرح ڈھک لے۔ اس کے بعد حدیث ذکر کرتے ہیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں:
لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الفجر فيشهد معه نساء من المؤمنات متلفعات فى مروطهن ثم يرجعن الى بيوتهن ما يعرفهن احد
(صحيح البخاري: 372)
ترجمہ: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریکِ نماز ہوتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں، اس وقت انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔“
اس حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ اس میں عورت کے ایک چادر (مروط) کا ذکر ہے۔ مروط، مرط کی جمع ہے، اونی اور ریشم وغیرہ سے بنا ہوا ایک کپڑا جسے خاص طور پر عورتیں بطور تہبند استعمال کرتی ہیں۔ اور یہاں پر عورتوں کے لیے بظاہر ایک ہی چادر کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ایک کپڑے میں نماز ادا کرتی تھیں۔ یہی باب سے مناسبت ہے۔ تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نزول آیت حجاب کے سلسلے میں اوپر جو حدیث گزری ہے، وہاں بھی مروط کا ذکر ہے۔ جب پردے کا حکم ہوا تو اسی مروط کو عورتوں نے چاک کر کے اوڑھنی بنا لیں۔ کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ مروط کے ذکر سے لازم نہیں آتا کہ عورتیں ایک ہی کپڑے میں نماز کے لیے جاتی تھیں یعنی زائد کپڑے کا ذکر نہ ہونا ایک ہی کپڑے ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں کپڑے کی تنگی تو تھی اور اس میں مروط کا ذکر ہے جو لحاف و بستر جیسا بڑا پردہ ہوتا ہے۔ اس میں عورت اچھی طرح پردہ کر سکتی ہے۔ لہذا ظاہری طور پر ایک ہی لباس معلوم ہوتا ہے۔ پھر جب آیت حجاب نازل ہوئی تو مروط کو پھاڑ کر عورتوں نے سب سے پہلے دوپٹہ بنایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر عورت اچھی طرح بدن ڈھک لیتی ہے تو ایک کپڑے میں بھی وہ نماز ادا کر سکتی ہے۔ یہ انتہائی مجبوری کی بات ہے۔

عورت کی نماز دو لباس میں

ابھی میں نے بتایا کہ عورت ایک بڑے کپڑے میں مکمل جسم ڈھک کر نماز ادا کر سکتی ہے۔ یہ انتہائی مجبوری کا معاملہ ہے اور بظاہر مروط کے لفظ سے ایک کپڑے والی غیر صریح حدیث آیت حجاب کے نزول سے پہلے کی معلوم ہوتی ہے۔ اور جب حجاب کا حکم ہوا تو سبھی عورتوں نے دوپٹہ بنا لیے۔ یہی وجہ ہے کہ بالغہ عورت کو نماز کے لیے دوپٹہ لازم قرار دیا گیا ہے یعنی عورت نماز پڑھنے کے لیے کم از کم دو لباس استعمال کرے گی: ایک قمیص جو کندھے سے لے کر پیر تک پورے بدن کو ڈھک دے اور ایک دوپٹہ جس سے سر، بال، کان، گردن، سینہ اور گریبان اچھی طرح ڈھکیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يقبل الله صلاة حائض الا بخمار
(صحيح أبي داود: 641)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ حائضہ یعنی (بالغ) عورت کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں فرماتا۔“
معلوم ہوا کہ عورت کی نماز کے لیے کم از کم دو کپڑے، ایک قمیص اور دوسرا دوپٹہ، ضروری ہیں اور عہد رسالت میں عام عورتوں کا گھریلو لباس، خصوصاً آیت حجاب کے نزول کے بعد، دو کپڑوں والا ہی ہوتا تھا، جیسا کہ اس بارے میں اوپر حدیث گزر چکی ہے۔
دو کپڑوں میں عورتوں کی نماز سے متعلق اثر بھی ملتا ہے:
عن عبيد الله الخولاني وكان يتيما فى حجر ميمونة ان ميمونة كانت تصلي فى الدرع والخمار ليس عليها ازار
ترجمہ: ”عبید اللہ خولانی بیان کرتے ہیں، جو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر یتیم تھے، کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ایک قمیص (درع) اور دوپٹہ (خمار) میں نماز ادا کرتی تھیں اور آپ کے پاس تہبند (ازار) نہیں ہوتا تھا۔“
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے، (تمام المنة: 162)

عورت کی نماز اور کپڑے کی افضل صورت

پہلے میں نے آپ کو بتایا کہ حالتِ مجبوری میں عورت ایک لباس میں بھی نماز ادا کر سکتی ہے بشرطیکہ مکمل جسم ڈھک لے، کیونکہ نماز کے لیے اصل کپڑوں کی تعداد نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ عورت اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھک کر نماز ادا کرے۔
◈ پھر میں نے بتایا کہ عورت کی نماز کے لیے کم از کم دو کپڑوں (قمیص و دوپٹہ) کا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔
◈ اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت عام طور پر کپڑوں کی تنگی نہیں ہے۔ اس لیے کوئی عورت صرف قمیص و دوپٹہ استعمال نہیں کرتی بلکہ شلوار (تہبند) بھی استعمال کرتی ہے۔ گویا عموماً عورتیں تین کپڑے استعمال کرتی ہیں۔ انہی تین کپڑوں میں وہ نماز ادا کر سکتی ہیں۔ نماز میں قدم ڈھکنے سے متعلق ایک اہم معاملہ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔
تین کپڑوں میں عورتوں کی نماز سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں، وہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

پہلا اثر:

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے:
قالت عائشة لا بد للمرأة من ثلاثة اثواب تصلي فيهن درع وجلباب وخمار وكانت عائشة تحل ازارها فتجلبب به
ترجمہ: ”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ عورت کے لیے تین کپڑے ضروری ہیں، ان کپڑوں میں عورت نماز ادا کرے، وہ کپڑے قمیص (درع)، بڑی چادر (جلباب) اور دوپٹہ (خمار) ہیں۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ازار (تہبند) اتار کر اسے بطور جلباب (پردہ) اوڑھ لیا کرتی تھیں۔“
شیخ البانی نے کہا کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے،( جلباب المرأة: 134)

دوسرا اثر:

عن عمر بن الخطاب قال تصلي المرأة فى ثلاثة اثواب درع وخمار وازار
ترجمہ: ”حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ عورت تین کپڑوں میں نماز ادا کرے، وہ تین کپڑے قمیص، دوپٹہ اور تہبند ہیں۔“
شیخ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، (تمام المنة: 162)

تیسرا اثر:

قال ابن عمر اذا صلت المرأة فلتصل فى ثيابها كلها الدرع والخمار والملحفة
ترجمہ: ”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب عورت نماز پڑھنے لگے تو اپنے تمام کپڑوں یعنی قمیص، دوپٹہ اور چادر میں نماز ادا کرے۔“
شیخ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، (جلباب المرأة: 135)
ان بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے تین کپڑوں میں نماز بہتر و افضل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تین کپڑوں سے عورت کا جسم اچھی طرح ڈھک جاتا ہے، حتیٰ کہ پیر بھی ڈھک جاتا ہے۔
اب تین کپڑوں کی تفصیل کیا ہو سکتی ہے؟ ہمارے یہاں تو قمیص و شلوار اور دوپٹہ ہے، مگر ان تین کپڑوں سے پیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، کیونکہ شلوار پہننے سے پیر نہیں ڈھکتا۔ ایسی صورت میں مذکورہ بالا آثار میں جس قسم کے کپڑے بیان کیے گئے ہیں، عورتیں ان جیسے کپڑوں کا استعمال کر کے نماز ادا کریں تاکہ نماز کے لیے ڈھکنے والے تمام حصے پوری طرح ڈھک جائیں۔ قمیص اور شلوار تو رہیں گے ہی کیونکہ یہ عام رواج کا کپڑا ہے۔ یہ دو کپڑے ہوگئے۔ تیسرے کپڑے کے طور پر جلباب کی خصوصیت والا کوئی مخصوص لباس استعمال کریں جو سر سے قدم تک ڈھک دے۔ عرب کی خواتین نماز کے لیے قمیص و ازار کے علاوہ ایک مخصوص لباس بھی استعمال کرتی ہیں جس کو ملابس الصلاة کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایسا لباس ہے جس کا اوپری حصہ دوپٹہ کی طرح استعمال ہوتا ہے، اسے عورت سر سے اچھی طرح لپیٹ لیتی ہے اور نیچے زمین تک پہنچتا ہے جس سے دونوں قدم ظاہری و باطنی دونوں ڈھک جاتے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ نماز کے واسطے کوئی کپڑا مخصوص نہیں کیا گیا ہے۔ یہ محض اپنی پسند کا لباس ہے جو خوب پردے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ چاہیں تو یہ مخصوص کپڑا نماز کے لیے سلا سکتے ہیں اور دوسرے ممالک میں اس کا رواج بھی ہے۔ عورتوں کی نماز میں لباس کا مقصد یہ ہے کہ آپ قمیص و شلوار کے ساتھ تیسرا کپڑا ایسا استعمال کریں جس سے سر اور اس کے بالوں سمیت دونوں پیروں کو بھی ڈھک دے۔ نماز کے لیے اس قسم کے تین لباس کا استعمال عورتوں کے لیے افضل ہے، تاہم یہ بھی جائز ہے کہ عورت قمیص، شلوار اور اوڑھنی کے ساتھ نماز ادا کرے، مگر افضل نہیں ہے کیونکہ دوپٹہ سے صرف اوپری حصہ ڈھکے گا اور شلوار میں دونوں قدم ظاہر ہوں گے۔ جبکہ نماز میں دونوں قدموں کو ڈھکنا واجب تو نہیں ہے، مگر بطور احتیاط افضل ضرور ہے اور اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کو ضرور مدنظر رکھیں۔ قمیص و شلوار اور اوڑھنی والی عورت نماز کے لیے جراب پہن سکتی ہے، مگر اس میں تکلف و مشقت ہے۔

عورت کا لباس اور چہرہ

نماز میں عورت کے لباس کا مسئلہ مذکور ہو چکا ہے۔ اب یہ جاننا ہے کہ کیا عورت کو نماز پڑھتے ہوئے اپنا چہرہ بھی ڈھکنا ضروری ہے؟ اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں، بلکہ ابن عبدالبر نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھے گی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی حالت میں چہرہ ڈھکنے سے منع بھی فرمایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن السدل فى الصلاة وان يعطي الرجل السدل فى فاه
(صحيح أبي داود: 643)
ترجمہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔“
اس حکم میں مرد بھی داخل ہے اور عورت بھی داخل ہے۔ تاہم ضرورت کے وقت مرد ہو یا عورت اپنے چہرے کو ڈھک سکتے ہیں، جیسے کورونا کے وقت لوگ ماسک لگا کر نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح جب عورت ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں غیر محرم مرد بھی ہوں تو اس جگہ عورت کو اپنا چہرہ ڈھک کر نماز ادا کرنا ہے، خواہ اپنے گھر میں نماز ادا کرے یا گھر سے باہر کہیں نماز ادا کرے۔

عورت کا لباس اور ہتھیلی

نماز میں عورتوں کے دونوں ہاتھوں کو چھپانے سے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ عورت سراپا پردہ ہے، اس لیے چہرے کے ماسوا تمام حصوں کو چھپا کر نماز ادا کرے۔ لیکن اس سلسلے میں مناسب قول یہ ہے کہ عورت نماز پڑھتے ہوئے دونوں ہتھیلیوں کو کھول سکتی ہے۔ تاہم اگر انہیں بھی چھپا کر نماز ادا کرتی ہے تو بہتر ہے، مگر اسے ضروری قرار نہیں دیا جا سکتا۔

عورتوں کا لباس اور قدم

نماز کی حالت میں عورت اپنے قدموں کو چھپائے گی یا نہیں، اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ عورت کو نماز میں اپنے دونوں پیروں کا ڈھکنا واجب ہے، جبکہ بعض علماء کہتے ہیں کہ پیروں کا ڈھکنا واجب نہیں۔ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ نماز میں عورت کے لیے اپنے پیروں کا ڈھکنا واجب نہیں ہے کیونکہ وجوب پر دلالت کرنے والی کوئی صریح مرفوع حدیث نہیں ہے۔ ابوداؤد میں ایک حدیث اس طرح مروی ہے:
ام حرام والدہ محمد بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
سألت ام سلمة ماذا تصلي فيه المرأة من القياب فقالت تصلي فى الخمار والدرع السابغ الذى يعتب قلهور قدميها
ترجمہ: ”عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟ تو انہوں نے کہا: وہ اوڑھنی اور ایک ایسے لمبے کرتے میں نماز پڑھے جو اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصے کو چھپا لے۔“
یہ موقوف روایت ہے اور شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے، (ضعیف أبي داود: 639)
ابوداؤد کی اگلی حدیث مرفوع ہے۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
انها سألت النبى صلى الله عليه وسلم أتصلي المرأة فى درع وخمار ليس عليها ازار قال اذا كان الدرع سابغا يغطي ظهور قدميها
ترجمہ: ”انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں، جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(پڑھ سکتی ہے) جب کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصے کو ڈھانپ لے۔“
اس حدیث کو بھی شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے،( ضعيف أبى داود: 640)
چونکہ یہ دونوں احادیث ضعیف ہیں، اس لیے ان سے استدلال نہیں کریں گے۔ اسی طرح ایک اور حدیث کو یہاں ذکر کرنا مفید ہوگا:
قبیلہ بنو عبدالاشہل کی ایک عورت کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا:
قلت يا رسول الله ان لنا طريقا الى المسجد منتنة فكيف نفعل اذا مطرنا قال اليس بعدها طريق هي اطيب منها قالت قلت بلى قال فهذه بهذه
(صحيح أبي داود: 384)
ترجمہ: ”میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا مسجد تک جانے کا راستہ غلیظ اور گندگیوں والا ہے، تو جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا اس کے آگے پھر کوئی اس سے بہتر اور پاک راستہ نہیں ہے؟‘‘ میں نے کہا: ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو یہ اس کا جواب ہے۔“
یہ صحیح حدیث ہے۔ اس میں یہ مذکور ہے کہ عہد رسالت میں عورت جب نماز پڑھنے کے لیے جاتی تو اس کا قدم ڈھکا ہوتا تھا کہ کپڑے زمین سے گھسٹتے تھے۔ اور میں پہلے یہ بات بتا چکا ہوں کہ عورت جب گھر سے مسجد کے لیے نکلے گی تو وہ پردہ لگائے گی جو باہر نکلنے والا پردہ ہوگا یعنی عورت کے گھر کا لباس الگ ہے، مگر باہر نکلنے کا لباس الگ ہے، جیسے عورتوں کے عیدگاہ نکلنے سے متعلق حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے بھی آپ نے جانا ہے۔ لہذا یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ نماز میں عورت کے لیے اپنا پیر ڈھکنا واجب ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورت کے لیے نماز میں اپنے قدم ڈھکنا واجب نہیں ہے، لیکن احتیاطاً قدموں کو ڈھکنا افضل ضرور ہے کیونکہ عورتوں کے لیے نماز میں اوپر کپڑوں کی جو تعداد بیان کی گئی ہے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرون مفضلہ کی خواتین اس طرح کے کپڑوں میں نماز پڑھتی تھیں جن سے پورا جسم، حتیٰ کہ پیر بھی ڈھک جاتے تھے۔ تاہم جو خواتین اپنے گھروں میں قمیص و شلوار اور دوپٹے میں نماز ادا کرتی ہیں، جن سے ان کے قدم ظاہر ہو جاتے ہیں، ان کی نماز اپنی جگہ درست ہے۔ پیر چھپانا افضیلت کا مسئلہ ہے یعنی چھپانا افضل ہے اور نہ چھپائیں تب بھی نماز ہو جائے گی۔

عورتوں کے لباس سے متعلق بعض مسائل

(1) عورت ایسے کپڑوں میں نماز نہ ادا کرے جن میں نقش و نگار، بیل بوٹے یا تصاویر ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان فرماتی ہیں:
ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى فى خميصة لها اعلام فقال شغلتني اعلام هذه اذهبوا بها الى ابي جهم واتوني بالبجانية
(صحيح البخاري: 752)
ترجمہ: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی۔ پھر فرمایا: ’’اس کے نقش و نگار نے مجھے غافل کر دیا۔ اسے لے جا کر ابو جہم کو واپس کر دو اور ان سے بجائے اس کے سادی چادر مانگ لاؤ۔“
حتیٰ کہ نماز والی جگہ پر ایسے تصاویر و نقش و نگار بھی نہ ہوں جن سے دھیان بھٹک جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔‘‘
(صحيح البخاري: 374)
اس جگہ یہ مسئلہ بھی جان لیں کہ اگر کسی نے جاندار کی تصویر والے کپڑے میں یا بیل بوٹے والے کپڑے اور جائے نماز میں نماز ادا کر لی تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے، اسے نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم ایسے کپڑے پہن کر نماز ادا نہ کرے، بلکہ اصلاً ایسے کپڑے پہننا ہی نہیں چاہیے۔
(2) بہت ساری خواتین ایسی جائے نماز پر نماز ادا کرتی ہیں جن پر نقش و نگار، بیل بوٹے اور خانہ کعبہ وغیرہ کی تصاویر بنی ہوتی ہیں، جبکہ اس قسم کی جائے نماز پر نماز نہیں ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ چیزیں نماز سے دھیان ہٹانے والی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقش و نگار والی چادر کو گھر سے ہی نکال دینے کا حکم دیا تھا، جو حدیث اوپر گزری ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں بخاری کی یہ حدیث بھی دیکھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔‘‘
(صحيح البخاري: 374)
اور سنن ابن ماجہ میں اس طرح سے مروی ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے روشن دان پر پردہ ڈالا یعنی اندر سے، پردے میں تصویریں تھیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے اسے پھاڑ ڈالا۔ میں نے اس سے دو تکیے بنا لیے۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ایک تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔
(سنن ابن ماجہ: 3653، قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)
ان ساری احادیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت نماز پڑھتے وقت بیل بوٹے والی جائے نماز پر نماز نہ پڑھے، حتیٰ کہ نماز سے دھیان بھٹکانے والی کوئی تصویر و علامت جائے نماز میں یا لباس میں یا سامنے نہ ہو۔ نماز پڑھنے کے لیے عام اور سادہ جائے نماز منتخب کرے کیونکہ خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کی بندگی کرنا مقصد ہے۔
(3) بعض عورتیں نماز کے لباس کو ہلکے میں لیتی ہیں اور بغیر دوپٹے کے نماز پڑھ لیتی ہیں یا دوپٹہ تو ہوتا ہے مگر باریک ہوتا ہے جس سے بال اور سر اچھی طرح نہیں ڈھکتے یا جھلکتے ہیں۔ یاد رہے، ایسی صورت میں نماز نہیں ہوگی۔ دوپٹہ موٹا ہو جس سے پورا سر، بالوں سمیت اچھی طرح ڈھکے، صرف چہرہ کھلا رکھنا ہے۔
(4) ضعیف و بیمار عورت نماز میں سر کو ایسے دوپٹے سے چھپائے گی جس سے بال ظاہر نہ ہوں۔ یہی حکم نوجوان عورت، عام عورت، مرض زدہ، ضعیفہ اور بوڑھی کا بھی ہے۔ اگر مرض یا ضعف اس قدر شدید ہو کہ نماز میں حجاب کی مکمل پابندی کرنا ناممکن ہو اور کوئی مدد کرنے والا بھی نہ ہو تو جس قدر ہو سکے پابندی کرے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔
(5) دوپٹے کے علاوہ قمیص و تہبند بھی باریک نہ ہو، مطلب ایسا نہ ہو جس سے خدوخال نمایاں ہوں اور نہ ہی کپڑے چھوٹے اور چست ہوں۔ لباس ساتر اور ڈھیلا ہو تاکہ آرام سے نماز ادا کی جا سکے۔
(6) گرمی کے موسم میں بہت سی خواتین مجبوری یا سستی کی وجہ سے جھلکتے دوپٹے یا باریک لباس میں نماز ادا کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں نماز نہیں ہوگی کیونکہ نماز درست ہونے کے لیے مشروط لباس کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ بہت ساری خواتین کو گرمی سے حفاظت کی سہولت میسر نہ ہو، پھر بھی نماز کے لیے مناسب لباس کا ہونا ضروری ہے اور اس میں عورت کو جو تکلیف لاحق ہو گی، اس پر اللہ کے یہاں زیادہ اجر ہے۔
(7) آج کل عورتوں میں چست لباس، خصوصاً چست پاجامہ کا رواج عام ہے، بلکہ کتنی عورتوں کے شلوار ٹخنوں سے اوپر ہوتے ہیں۔ نماز کے لیے اس قسم کا لباس نہیں چلے گا، بلکہ عورت کو کبھی بھی چست یا چھوٹے کپڑے نہیں پہننے چاہئیں۔ اکیلے میں یا شوہر کے سامنے کا مسئلہ الگ ہے۔
(8) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہے، اس لیے اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ یہ استدلال باطل ہے کیونکہ میں نے پہلے ہی اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ عورت کی نماز کا پردہ الگ ہے اور جسم کا پردہ الگ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عورت اپنے محرم کے سامنے سر کھول سکتی ہے، مگر نماز میں عورت کے لیے سر ڈھکنا واجب ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ چہرے کے پردے کا ہے یعنی عورت نماز میں اپنے چہرے کو کھلا رکھے گی، لیکن جب گھر سے باہر نکلے گی یا اس کے پاس اجنبی مرد ہو تو اپنے چہرے کو چھپائے گی، حتیٰ کہ نماز کے وقت وہاں کوئی اجنبی مرد ہو تو پھر نماز میں بھی اپنے چہرے کو چھپائے گی۔
(9) عورتوں میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اگر اس نے نماز میں انڈرگارمنٹ نہ پہنی ہو، مثلاً چڈی یا شلوار و پاجامہ نہ پہنی ہو، تو اس کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ شرمگاہ کا زمین سے بھی پردہ کرنا ہے۔ لہذا عورت کا ساڑی و پیٹی کوٹ یا بغیر انڈرگارمنٹ کے نائٹی اور دوپٹہ میں نماز نہیں ہوتی، حتیٰ کہ عام حالت میں بھی عورتوں کو انڈرگارمنٹ کے بغیر رہنے سے منع کیا جاتا ہے۔ یہی بات مردوں میں بھی مشہور ہے، وہ بھی لنگی میں نماز کو صحیح نہیں مانتے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے اور لوگوں کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی شرمگاہ کو زمین سے پردہ کرانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ستر چھپانے کا حکم ہوا ہے۔ اب کوئی عورت ساڑی سے ستر چھپائے یا نائٹی پہنے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر عورت چہرہ و ہاتھ و پیر کے علاوہ سارے اعضاء کو ڈھک کر نماز پڑھتی ہے تو اس کی نماز درست ہے، خواہ وہ جس طرح کے لباس سے بھی ستر پوشی کرے۔ سطور بالا میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ عہد رسالت کی خواتین تہبند کے بغیر بھی رہتی تھیں، صرف ایک قمیص اور دوپٹہ ہوتا تھا اور اسی میں نماز ادا کرتی تھیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں عورت کو اپنا جسم چھپانا ہے، خواہ جس لباس سے بھی ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو نماز کے وقت تہبند اتار لیا کرتی تھیں اور اسے جلباب بنا کر اوڑھ لیتی تھیں۔
اسی طرح مرد حضرات بھی بغیر انڈرگارمنٹ کے رہ سکتے ہیں اور نماز پڑھ سکتے ہیں۔ انہیں نماز میں کندھے سے لے کر گھٹنوں سے نیچے تک اپنا جسم چھپانا ہے، خواہ کسی بھی لباس سے چھپائیں۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث سے مسجد نبوی میں رہنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لباس کا اندازہ لگائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ ”میں نے ستر اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہبند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنہیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔ یہ کپڑے کسی کے آدھی پنڈلی تک آتے اور کسی کے ٹخنوں تک۔ یہ حضرات ان کپڑوں کو اس خیال سے کہ کہیں شرمگاہ نہ کھل جائے، اپنے ہاتھوں سے سمیٹے رہتے تھے۔“
(صحيح البخاري: 442)
اس حدیث میں اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم کا بیان ہے جن کے پاس محض ایک ہی کپڑا تھا۔ اسی کو عام حالت میں پہنتے، اسی کو اوڑھتے اور اسی ایک کپڑے کو لپیٹ کر نماز ادا کرتے تھے۔ اور بھی کتنی احادیث مذکور ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے صرف ایک لباس پہننے اور ایک ہی لباس میں نماز پڑھنے کا بیان ہے۔ اس لیے یہ بات غلط اور جھوٹ ہے کہ مرد یا عورت کو اپنی شرمگاہ زمین سے بھی چھپانی چاہیے۔
(10) امام بخاری نے 351 نمبر کی حدیث سے قبل معلقاً ایک اثر ذکر کیا ہے۔ امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ: اور ”وہ شخص جو اسی کپڑے میں نماز پڑھتا ہے جسے پہن کر وہ جماع کرتا ہے (تو نماز درست ہے) جب تک وہ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھے۔“
اس سے ایک مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کپڑے کو پہن کر میاں بیوی نے جماع کیا ہے، اس کپڑے میں نماز درست ہے۔ اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں، اگر اس میں منی لگ جائے تو فقط اس جگہ کو دھل لے، کافی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی آتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اسے پہن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں ہوتے تھے۔
(صحيح البخاري: 229)
(11) حیض کی حالت میں پہنے گئے کپڑوں کے بارے میں عورتوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ان کے کپڑے ناپاک ہوتے ہیں، بلکہ یہاں تک مانا جاتا ہے کہ حیض والی عورت کے جسم سے کپڑا مس ہو جانے اور پسینہ وغیرہ بھی لگ جانے سے ناپاک ہو جاتا ہے، لہذا اس میں نماز نہیں ادا کر سکتے۔ حیض کا کپڑا الگ اور خاص ہوتا ہے، استعمال کر کے اسے پھینک دینا چاہیے۔ عورتوں کے یہ خیالات غلط ہیں۔ آئیے، آپ کو حدیث رسول کی روشنی میں صحیح بات بتاتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما روایت کرتی ہیں:
جاءت امرأة النبى صلى الله عليه وسلم فقالت ارأيت احدانا تحيض فى الثوب كيف تصنع قال تحت ثم تقرصه بالماء وتنضحه وتصلي فيه
(صحيح البخاري: 227)
ترجمہ: ”ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! فرمائیے، ہم میں سے کسی عورت کو کپڑے میں حیض آ جائے (تو) وہ کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(کہ پہلے) اسے کھرچے، پھر پانی سے رگڑے اور پانی سے دھو ڈالے اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔“
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت پیش کرتا ہوں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
كانت احدانا تحيض ثم تقترص الدم من ثوبها عند ظهرها فتغسله وتنضح على سائره ثم تصلي فيه
(صحيح البخاري: 308)
ترجمہ: ”ہمیں حیض آتا تو کپڑے کو پاک کرتے وقت ہم خون کو مل دیتے، پھر اس جگہ کو دھو لیتے اور تمام کپڑے پر پانی بہا دیتے اور اسے پہن کر نماز پڑھتے۔“
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ حیض والی عورت جس کپڑے کو حیض کی حالت میں استعمال کی ہے، اس کپڑے میں جہاں حیض کا خون لگا ہو، اسے مل کر پانی سے دھو لے، کپڑا پاک ہو جائے گا۔ اب اسی کپڑے میں وہ نماز پڑھ سکتی ہے۔ اور جو کپڑا خشک ہو، اس میں حیض کا خون نہ لگا ہو، وہ پہلے سے پاک ہے، اسے دھونے کی بھی ضرورت نہیں ہے، جیسے قمیص اور دوپٹہ۔ عموماً ان میں خون نہیں لگتا، صرف شلوار میں خون لگتا ہے۔ اگر خدانخواستہ قمیص میں بھی خون لگ جائے تو اسے بھی دھل لے اور دھل جانے کے بعد تو کپڑا بالکل پاک ہے۔ اب اس میں نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ہاں، یہ ممکن ہے کہ دھلنے سے کپڑے کی نجاست دور ہو جائے، مگر کپڑے پر خون کے نشانات لگے رہ جائیں تو ان نشانات کی وجہ سے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کپڑا پاک ہو گیا ہے، چاہے اس پر نشان کیوں نہ معلوم ہوتا ہو۔
(12) بہت ساری عورتیں شیرخوار بچوں کے پیشاب و پاخانہ کی وجہ سے نماز ہی نہیں ادا کرتیں، جبکہ نماز ایک اہم فریضہ ہے، اسے کسی بھی حال میں نہیں چھوڑنا ہے۔ اگر بچہ کپڑے پر پیشاب کر دے، یا کپڑے میں پاخانہ لگ جائے یا کپڑے پر الٹی کر دے تو صرف اس جگہ کو دھلنا کافی ہے جہاں پر نجاست لگی ہے۔ پورا کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز اگر کوئی عورت ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لے جس میں نجاست لگی تھی، نماز کے بعد نجاست کا علم ہوا تو اس کی نماز درست ہے، نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن دورانِ نماز کپڑے میں نجاست لگنے کا علم ہو اور بحالتِ نماز نجاست زائل کرنا ممکن نہ ہو تو نماز توڑ کر پہلے نجاست کی صفائی کر لے اور پھر سے نماز ادا کرے۔
(13) مردوں کے لباس سے متعلق ذکر کردہ تمام احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نماز میں مردوں کا سر ڈھکنا ضروری نہیں ہے یا ٹوپی پہننا ضروری نہیں ہے۔ تاہم نماز کے لیے زینت (کپڑے) کا اہتمام کرنے کا حکم ہے، اس لیے ٹوپی لگاتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ ورنہ، نماز کے لباس میں ٹوپی کا ذکر نہیں ہے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ٹوپی کے بغیر نماز نہیں ہوتی یا بغیر ٹوپی کے نماز مکروہ ہوتی ہے، ان کی بات غلط ہے۔ نماز میں سر ڈھکنے کا حکم عورتوں کو ہوا ہے، نہ کہ مردوں کو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1