ختنہ کرانا فرض ہے؟ – مکمل تفصیلی جائزہ
سوال:
ختنے کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی شخص مسلمان ہو جائے تو کیا اس کا ختنہ کیا جائے گا؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ختنے سے متعلق سب سے راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ ختنہ واجب ہے اور اس کا ترک کرنا جائز نہیں۔ اس پر کئی دلائل موجود ہیں:
دلائل:
➊ پہلی حدیث:
عطیم بن کلیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
« الق عنک شعر الکفر »
(اپنے آپ سے کفر کے بال دور کر)
اور ایک دوسرے راوی نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ان سے یہ فرمایا:
« الق عنک شعر الکفر واخیتن »
(کفر کے بال دور کر اور ختنہ کرا)
حوالہ جات:
مسند احمد (3؍415)
ابوداؤد (1؍57)
بیہقی (1؍172)
حافظ ابن حجر، فتح الباری (4؍82)
سند: صحیح
نوٹ: یہ حدیث "امر” کے صیغے میں ہے، اور "امر” واجب کے لیے ہوتا ہے۔
➋ دوسری حدیث:
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الفطرة خمس : الختان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط»
فطرت کی پانچ خصلتیں ہیں:
1. ختنہ کرنا
2. زیر ناف بال صاف کرنا
3. مونچھیں کترنا
4. ناخن تراشنا
5. بغلوں کے بال اکھیڑنا
حوالہ جات:
صحیح مسلم
بیہقی (8؍323)
➌ تیسری حدیث:
حضرت علی فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی تحریر تلوار کے دستے میں ملی، جس میں لکھا تھا:
"اسلام غیر مختون شخص کو اس وقت تک قبول نہ کیا جائے جب تک اس کا ختنہ نہ کر دیا جائے، اگرچہ وہ اسی (80) سال کا کیوں نہ ہو۔”
حوالہ: بیہقی (8؍323)
➍ چوتھی دلیل: قرآن کی آیت
﴿ثُمَّ أَوحَينا إِلَيكَ أَنِ اتَّبِع مِلَّةَ إِبرٰهيمَ حَنيفًا﴾
(پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی کریں)
[سورۃ النحل، آیت 123]
ابو ہریرہ کی حدیث کے مطابق:
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں ختنہ کیا اور قدوم مقام پر کیا۔”
صحیح بخاری
فقہی اقوال و دلائل:
◈ امام بیہقی کے مطابق، ختنہ واضح علامت ہے جس سے مسلمان اور نصرانی میں فرق ہوتا ہے۔
◈ حافظ ابن حجر (1؍281) نے بھی اس بات کو ذکر کیا ہے۔
◈ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ غیر مختون شخص کا ذبیحہ نہ کھایا جائے۔
◈ حضرت علی غیر مختون کی گواہی کو معتبر نہیں سمجھتے تھے۔
(البتہ اس روایت کی سند ضعیف ہے)
اجماع علماء اور ضوابط:
◈ جمہور اہل علم کا موقف یہی ہے کہ ختنہ واجب ہے، چاہے وہ بچپن میں ہو یا کسی بڑے شخص کا بعد میں کیا جائے۔
◈ حضرت ابراہیم نے بھی اسی سال کی عمر میں ختنہ کرایا تھا۔
◈ اگر کسی شخص کی طبیعت کمزور ہو اور جان کو خطرہ ہو تو اس کے لیے ترک کرنا جائز ہے۔
(بحوالہ: تحفۃ المولود)
ختنہ کی وجوب پر مفصل دلائل:
◈ امام ابن القیم نے "تحفۃ المودود” صفحہ 11 پر ختنہ کے وجوب پر پندرہ وجوہات بیان کی ہیں۔
◈ مزید تفصیل کے لیے "تحفۃ المودود” اور "تمام المنۃ” صفحہ 69 کا مطالعہ کریں۔
خلاصہ کلام:
◈ ختنہ واجب ہے۔
◈ کسی بھی شخص کے مسلمان ہونے کے بعد اس کا ختنہ کروانا ضروری ہے، حتیٰ کہ وہ عمر رسیدہ کیوں نہ ہو۔
◈ اگر طبی خطرہ ہو تو رعایت دی جا سکتی ہے۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب