مسافر کتنے دن قصر نماز پڑھ سکتا ہے؟ مکمل وضاحت
سوال:
مسافر آدمی کتنے دن کے قیام پر قصر نماز ادا کر سکتا ہے؟ اور اس حدیث کا مفہوم بھی واضح کریں جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "مہاجر حج کے ارکان پورے کرنے کے بعد تین دن سے زیادہ نہ رکے”۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ "نبی کریم ﷺ جب سفر پر جاتے تو جب تک واپس نہ آتے قصر کرتے رہتے” — کیا اس حدیث سے یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ آدمی جتنے دن چاہے سفر میں رہے، قصر کرتا رہے اور اس میں دنوں کی کوئی قید نہیں؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دورانِ سفر قصر نماز کی مدت:
❀ جب کوئی شخص سفر میں ہو اور تردد (یعنی غیر یقینی یا مسلسل حرکت میں رہنے کی حالت) میں ہو تو شریعت نے قصر نماز کی مدت کی کوئی معیّن حد مقرر نہیں کی۔
❀ البتہ اگر کوئی شخص ارادہ کرکے کسی ایک جگہ قیام کرے تو چار دن سے زیادہ قیام کی صورت میں قصر نماز ادا کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔
مہاجرین اور مکہ مکرمہ میں قیام کی مدت:
❀ جن لوگوں نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی تھی، ان کے لیے مکہ میں مستقل اقامت جائز نہیں۔
❀ تاہم، ادائیگیٔ حج کے بعد ان کو مکہ میں تین دن رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔
حدیث کا مفہوم:
"مہاجر حج کے ارکان پورے کرنے کے بعد تین دن سے زیادہ نہ رکے”
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی وضاحت:
حدیث:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"نبی کریم ﷺ جب سفر پر جاتے تو جب تک واپس نہ آ جاتے قصر کرتے رہتے۔”
اس حدیث کی وضاحت:
❀ نبی کریم ﷺ کے تمام اسفار یا تو تردد (یعنی حرکت کی حالت) میں تھے یا پھر ارادہ کرکے کسی ایک مقام پر چار دن تک قیام پر مشتمل تھے۔
❀ ان تمام حالتوں میں آپ ﷺ نے قصر نماز ہی ادا فرمائی۔
❀ لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ قصر نماز کے لیے قیام کی کوئی مدت نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ مسافر کی حیثیت سے قصر نماز ادا فرمائی — اور جہاں ارادہ کرکے قیام کیا، وہ چار دن یا اس سے کم کا تھا۔
نتیجہ:
❀ تردد کی حالت میں قصر نماز کی کوئی مدت مقرر نہیں۔
❀ اگر ارادہ کرکے قیام ہو، تو چار دن سے زائد کی مدت میں قصر کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔
❀ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی اسی اصول کی تائید کرتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب