سوال :
آج کل مردوں کے لیے ایک نیا کپڑا آیا ہے، جس پر کڑھائی ہوئی ہوتی ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ ایسا کپڑا پہننے سے عورتوں کی مشابہت ہوتی ہے، یہ جائز نہیں، اس کے متعلق وضاحت فرمائیں؟
جواب :
اگر کسی کپڑے پر ایسی کڑھائی کی گئی ہو جو عورتوں کے لیے ہوتی ہے اور معاشرے میں وہ کڑھائی والا لباس عورتیں پہنتی ہیں تو مردوں کو ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے، کیونکہ اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور مردوں کو ہر ایسے امر سے اجتناب کرنا چاہیے جس میں عورتوں سے مشابہت لازم آتی ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کی لعنت ہو ایسے مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔
(مسند احمد 339/1 ح 3151، بخاری کتاب اللباس باب المتشبهين بالنساء والمتشبهات بالرجال ح 5885)
امام طبری فرماتے ہیں: ”اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کے ساتھ ایسے لباس اور زینت میں جو عورتوں کے لیے مختص ہے، مشابہت جائز نہیں اور نہ عورتوں کے لیے جائز ہے کہ وہ مردوں کے مخصوص لباس و زینت میں ان کی مشابہت کریں۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس پر مزید فرماتے ہیں: ”اسی طرح طرز تکلم اور چال میں بھی مشابہت منع ہے۔ لباس کی صورت و ہیت ہر ملک کے باشندوں کی عادات کے لحاظ سے مختلف ہے، بعض قوموں میں عورتوں کی عادات و رسوم لباس پہننے میں مردوں سے مختلف نہیں ہوتیں، لیکن عورتیں حجاب و ستر کے لحاظ سے مردوں سے ممتاز ہو جاتی ہیں۔“
(فتح الباري 332/10)
البتہ ایسی کڑھائی جو مردوں کے لیے مختص ہے، انھیں پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میں مردوں کے لیے موتیوں کا پہننا مکروہ نہیں رکھتا، الا وہ عورتوں کی عادات میں سے ہو۔“
اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔
”انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جبہ نکالا، اس کے گریبان، آستیوں اور چاک پر دیباج (موٹا ریشم) کا حاشیہ تھا۔“
(ابو داود کتاب اللباس باب الرخصة في العلم وخيط الحرير ح 4054)
اس حدیث کا پس منظر یوں ہے کہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پیغام بھیجا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ آپ کپڑے پر نقش و نگار وغیرہ کو حرام سمجھتے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا: ”میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریشم وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، تو مجھے ڈر لاحق ہوا کہ یہ کپڑے کا نقش و نگار اس میں سے نہ ہو۔“ اس پر اسماء رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ مبارک نکال کر دکھلایا جس کا گریبان، چاک اور آستین ریشم کا تھا۔
(صحیح مسلم کتاب اللباس والزينة باب تحريم استعمال إناء الذهب ح 2096، ابو داود کتاب اللباس باب الرخصة في العلم وخيط الحرير ح 4054)
امام ابو داود نے اس حدیث پر باب باندھا ہے: ”کپڑے میں دھاری و نقش اور ریشمی دھاگے کی رخصت کا بیان۔“ اور ابن ماجہ میں اس پر باب ہے ”کپڑے میں نقش و نگار اور دھاری کے جواز کا بیان۔“
(ابن ماجہ قبل الحدیث 3593)
شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن البسام فرماتے ہیں: ”جبہ وعبا میں ان مذکورہ جگہوں پر بناؤ سنگھار کی اس حدیث سے اجازت نکلتی ہے اور اسی طرح کے مردوں کے لباس میں بھی۔“
(توضیح الأحكام 124/3)
اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ مردوں کے گریبان، چاک اور آستینوں میں دھاری و نقش بنانا جائز ہے، یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت نہیں ہے اور ایسا لباس سلائی کرنا بھی جائز ہے۔ درزی کو ہر وہ لباس تیار کرنا جائز ہے جو شرع کے موافق ہے اور ہر ایسے لباس کو پہننے سے اجتناب کرنا چاہیے جو شریعت کے مخالف ہو۔ (واللہ أعلم)