مرتے وقت کلمہ پڑھنے والے 2 افراد کا فرق واضح
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الجنائز، صفحہ 507

موت کے وقت کلمہ طیبہ پڑھنے کی حقیقت

(کیا "دخل الجنۃ” کی حدیث ہر کلمہ گو پر صادق آتی ہے؟)

سوال:

ایک شخص جو زبان سے کلمہ گو ہے، مگر اپنی زندگی میں شرک اور بدعات میں ملوث رہا، اور مرتے وقت اس کی زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہو جائے—
➊ کیا ایسے شخص کے لیے "دخل الجنة” والی حدیث لاگو ہو سکتی ہے؟
➋ کیا کلمہ گو مشرک کا جنازہ پڑھنا سنت سے ثابت ہے جبکہ اس کا آخری کلام کلمہ ہو؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایمانِ حقیقی اور آخری وقت کا کلمہ:

◈ اگر کوئی شخص دین اسلام کا دشمن ہو، جیسے کہ یہودی، عیسائی وغیرہ، اور وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے میں کلمہ شہادت پڑھ لے تو یہ اس کے لیے نفع مند ثابت ہو سکتا ہے۔
◈ تاہم اگر کوئی شخص ظاہری طور پر کلمہ گو ہو لیکن عقیدے اور عمل میں کفر و شرک میں مبتلا ہو—مثلاً مرزائی وغیرہ—تو
جب تک وہ اپنے کفر و شرک سے مکمل براءت اختیار نہ کرے، صرف کلمہ پڑھ لینا اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔

حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"من قال لا اله الا الله وكفر بما يعبد من دون الله حرم ماله ودمه وحسابه علي الله”
"جس نے لا إلہ إلا اللہ کہا اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سے کفر کیا، اس کا مال اور خون حرام ہے، اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔”
(صحیح مسلم: 33)

◈ اس حدیث میں "کفر بما يعبد من دون الله” (یعنی اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سے انکار) کو اصل نکتہ قرار دیا گیا ہے۔
◈ اس کا مطلب ہے کہ کلمہ گوئی کے ساتھ ساتھ شرک کا انکار اور بیزاری ضروری ہے تاکہ یہ کلمہ انسان کے لیے مفید ہو۔

مزید مطالعہ:

◈ مزید وضاحت کے لیے صحیح مسلم کا مذکورہ باب مع شروح دیکھنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

نتیجہ:

◈ صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینا، جبکہ دل میں شرک، کفر یا بدعات کا عقیدہ موجود ہو، نجات کی ضمانت نہیں۔
صحیح ایمان، شرک سے براءت اور اخلاص شرط ہیں۔
◈ جنازہ صرف ان کے لیے ثابت ہے جو حقیقی معنوں میں اسلام کے پیروکار ہوں، نہ کہ محض کلمہ گو لیکن مشرک یا مبتدع۔

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1