ماخوذ : فتاویٰ علمیہ جلد: 1، کتاب الصلاۃ، صفحہ: 367
مدرک رکوع کی رکعت کا حکم
سوال:
کیا مدرک رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں علماء کے دو موقف ہیں:
پہلا موقف: مدرک رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے
ان کے دلائل کا جائزہ:
- حدیث: "من أدرك الركعة فقد أدرك الصلاة”
روایت:
«إذا جئتم ونحن سجود فاسجدوا ولا تعتدوا شيئًا، ومن أدرك الركعة فقد أدرك الصلاة»
(ابو داؤد، ابن خزیمہ: 1622، حاکم: 1/216، 273، 276، دارقطنی: 1/347 ح1299، بیہقی: 2/88)
سند کا حال:
راوی یحییٰ بن ابی سلیمان منکر الحدیث ہے۔
امام بخاری نے فرمایا: "منكر الحديث” (جزء القراءة: 239)
ابن خزیمہ نے کہا: "دل اس سند پر مطمئن نہیں ہے” (صحیح ابن خزیمہ: 3/57-58)
تبصرہ:
یہ روایت مدرک رکوع کی دلیل نہیں بلکہ عموم نماز پر دلالت کرتی ہے۔ - روایت: "اذا جئتم والامام راكع فإركعوا…”
بیہقی کی روایت:
«عن عبدالعزيز بن رفيع عن رجل عن النبي ﷺ…»
(بیہقی: 2/89)
سند کا حال:
"رجل” مجہول ہے، صحابی ہونے کا ثبوت نہیں۔
ایک اور روایت (بیہقی: 2/296) میں "شیخ من الأنصار” ہے، جو مجہول ہے، روایت بھی معنعن ہے۔ - روایت: "من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدركها قبل أن يقيم الإمام صلبه”
راوی:
يحيى بن حميد، قرہ بن عبدالرحمن، ابن شهاب، ابوسلمہ، ابوہریرہ
تبصرہ:
قرہ بن عبدالرحمن جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
(فتاوی الدین الخالص، ج4، ص218) - قول ابن مسعود رضی اللہ عنہ
الفاظ: "من لم يدرك الإمام راكعاً لم يدرك تلك الركعة”
(بیہقی: 2/90)
سند کا حال:
علی بن عاصم ضعیف و مجروح
دوسری سند میں ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں۔ - فتویٰ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
روایت: (ابن ابی شیبہ: 1/99، طحاوی: 1/223، بیہقی: 2/90)
سند صحیح ہے، لیکن فتویٰ ہے، مرفوع روایت نہیں۔ - فتویٰ ابن عمر رضی اللہ عنہ
روایت: (ابن ابی شیبہ: 1/243)
تبصرہ:
حفص و ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف۔
ایک ضعیف شاہد بھی بیہقی میں ہے (2/90)۔ - قول: "فقد أدرك السجدة”
روایت:
زید بن ثابت و ابن عمر رضی اللہ عنہما (بیہقی: 2/90)
سند کا حال:
منقطع ہے؛ امام مالک نے واسطہ بیان نہیں کیا۔ - مقابل: امام بخاری کی روایت:
«لا يجزئك إلا أن تدرك الإمام قائماً قبل أن تركع»
(جزء القراءة: 132) - ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا قول:
«لا يركع أحدكم حتى يقرأ بأم القرآن»
(جزء القراءة: 133، سند صحیح) - ابن الزبیر رضی اللہ عنہ رکوع میں صف میں شامل ہوتے تھے
روایت: (ابن ابی شیبہ: 1/256 ح2631)
تبصرہ: ابن تیمم کی وجہ سے سند ضعیف - ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رکوع میں صف میں شامل ہوئے
روایت: (بیہقی: 2/90)
تبصرہ: تدلیس اور ابوبکر بن عبدالرحمن کے انقطاع کی وجہ سے ضعیف - ابوبکر رضی اللہ عنہ چل کر رکعت میں شامل ہوئے
روایت: (مسند احمد: 5/42 ح20435)
تبصرہ: بشار بن عبدالملک ضعیف، سند متصل نہیں - تابعین کا عمل
سعید بن المسیب، میمون، شعبی
(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/243-244)
تبصرہ: صحابہ کے اقوال اور مرفوع احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود - حدیث: "لاتبادروني بركوع…”
روایت: (سنن ابی داود: 619، سند حسن)
تبصرہ: یہ روایت مدرک رکوع کی دلیل نہیں، مگر بعض فقہاء نے اسے دلیل بنایا (عمدۃ القاری: 3/153) - دو تکبیریں کہنا
راوی: عروۃ بن الزبیر و زید بن ثابت (ابن ابی شیبہ: 1/242)
تبصرہ: زہری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف، دلیل نہیں بنتی - ابوعبیدہ اور ان کے والد کا عمل
روایت: (ابن ابی شیبہ: 1/255)
تبصرہ: منقطع، کیونکہ ابوعبیدہ نے اپنے والد سے روایت نہیں سنی - روایت: "ولا تعتدوا بالسجود…”
راوی: عبدالعزیز بن رفیع عن ابن مغفل المزنی
(مسائل احمد واسحاق: 1/127/1، الصحیحہ: 1188)
تبصرہ: دونوں صورتوں میں سند منقطع
دوسرا موقف: مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہوتی
دلائل:
- دو فرض چھوٹ جاتے ہیں:
(1) قیام
(2) سورۃ فاتحہ - حدیث: "لا صلاة لمن لم يقرأ بها”
روایت: «لا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها»
(کتاب القراءة للبیہقی)
سند کا حال:
نافع بن محمود ثقہ
دارقطنی، بیہقی، ابن حبان، ابن حزم، الذہبی وغیرہم نے ثقہ قرار دیا - امام بخاری اور جلیل القدر علماء کی رائے
امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر علماء کے نزدیک، مدرک رکوع کی رکعت شمار نہیں ہوتی۔
تفصیل کیلئے:
مولانا محمد منیر قمر حفظہ اللہ کا رسالہ
"رکوع میں ملنے والے کی رکعت، جانبین کے دلائل کا جائزہ”
(ماہنامہ الحدیث، شمارہ 30، 26 رجب 1427ھ)
نتیجہ:
مدرک رکوع کی رکعت کے مسئلے میں اختلاف موجود ہے، تاہم صحیح دلائل کی روشنی میں دوسرا موقف راجح معلوم ہوتا ہے کہ جس نے قیام اور سورۃ فاتحہ نہیں پائی، اس کی وہ رکعت شمار نہیں ہو گی۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب