محرم الحرام کے پہلے عشرے میں شادی اور خوشی کی شرعی حیثیت
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد نمبر: 1، صفحہ نمبر: 157

کیا محرم الحرام کے پہلے عشرے میں شادی کرنا جائز ہے؟

سوال

کیا محرم الحرام کے پہلے عشرے میں شادی بیاہ، کسی خوشی کی تقریب منعقد کرنا یا دسویں تاریخ کو فاقہ کرنا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محرم میں شادی یا خوشی کرنا

محرم کے پہلے عشرے یا پورے مہینے میں بغیر اس نیت کے کہ خوارج اور نواصب کی پیروی مقصود ہو، شادی بیاہ یا کوئی بھی خوشی کی تقریب منعقد کرنا بلا شبہ جائز اور مباح ہے۔
نہ تو قرآن کریم میں، نہ کسی صحیح یا ضعیف حدیث میں، اور نہ ہی کسی صحابی یا امام سے ان دنوں میں شادی یا خوشی کرنے کی ممانعت ثابت ہے۔
اسی طرح دسویں محرم کو فاقہ کرنا بھی ثابت نہیں ہے۔

دسویں محرم کا روزہ

البتہ دسویں، یا نویں اور دسویں، یا دسویں اور گیارہویں تاریخ کو روزہ رکھنا معتبر احادیث کی روشنی میں ثابت ہے اور اس پر اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔

مزید تحقیق

آخر چہارشنبہ اور محرم الحرام کے متعلق "محدث” میں کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں، جنہیں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

حضرت حسینؓ کی شہادت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دو بدعتیں

دشمنان علیؓ کی بدعت

◈ علیؓ سے بغض اور دشمنی رکھنے والوں نے عاشورہ کے دن خوشی اور شادمانی کی بدعت ایجاد کی۔
◈ حتی کہ اس دن خوشی کرنے کی فضیلت سے متعلق جعلی حدیثیں گھڑ لیں۔
◈ انہوں نے عاشورہ کے دن سرمہ لگانے، غسل کرنے، اہل و عیال پر فراخی کرنے اور غیر معمولی عمدہ کھانا کھانے کو مستحب قرار دینا شروع کر دیا۔

توسیع اہل و عیال والی حدیث کی حقیقت

اس بارے میں جو حدیث مشہور ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
"من وسع أهله يوم عاشوراء، وسع الله عليه سائرسنته”

اس حدیث کے بارے میں علمائے کرام کی آراء:

ابن الجوزی نے "العلل المتناهية” (2/62-63، 909/910) اور "الموضوعات الكبرى” (2/203) میں فرمایا:
"والحديث غير مخفوظ، ولا يثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم”

ابن عراق نے "تنزيه الشريعة” (2/152-157) میں لکھا:
"قلت: قال ابن حجر: منكر جدا…. وأخرجه الدارقطنى فى الافراد، وقال: منكر”

حافظ ابن تیمیہ نے "احاديث القصاص” میں بیان کیا کہ:
"قال حرب الكرمانى: سألت احمد بن حنبل عن الحديث….؟ فقال: لا أصل له”
مزید فرمایا گیا کہ:
"وأصله من كلام ابراهيم بن محمد بن المنتشر عن أبيه، قال: بلغنا، ولم يذكر عمن بلغه”

البانی نے "مشكوة المصابيح” (1/603) میں کہا:
"هو حديث ضعيف من جميع طرقه…. والذين لا يثبت بالتجربة”

مبارکپوری نے "مرعاة المفاتيح” (6/36) میں کہا:
"والمعتمد عندى هو ماذهب اليه البيهقى، أن له طرقا يقوى بعضها بعضا، إن أسانيده الضعيفة أحدثت قوة بالتضام والله تعالى أعلم”

ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کی صحت اور اس کی حجیت کے بارے میں شدید اختلاف ہے اور کوئی قوی بنیاد نہیں۔

 شیعیان علیؓ کی بدعت

◈ شیعیان علیؓ نے رنج و غم، نوحہ و ماتم، گریہ و زاری، مرثیہ خوانی، سینہ کوبی، فاقہ کشی، تعزیہ داری وغیرہ کی بدعتوں کو جنم دیا۔
◈ ان بدعتوں کے ضمن میں بے شمار جعلی احادیث گھڑی گئیں اور عوام الناس کو گمراہی میں مبتلا کیا گیا۔

یہ دونوں گروہ یعنی دشمنان علیؓ اور شیعیان علیؓ، اہلِ خواہشات اور اہلِ بدعت میں شامل ہیں۔

صحیح رویہ

لہٰذا ہمیں نہ تو شیعیان علیؓ کے طریقے کی پیروی کرنی چاہیے اور نہ ہی دشمنان علیؓ کی تقلید کرنی چاہیے۔
اسی طرح محض شیعوں کی مخالفت کی نیت سے عاشورہ کے دن خوشی منانا بھی درست نہیں۔
اگر کوئی ایسی نیت نہ ہو تو محرم میں شادی بیاہ یا خوشی کرنا بلاشبہ جائز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1