إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
باب الإسلام وبيان خصاله
اسلام اور اس کے محاسن کا بیان
قال الله تعالى: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
(المائدة: 3)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی، اور اسلام کو بحیثیت دین تمہارے لیے پسند کر لیا۔“
وقال الله تعالى: ﴿ أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ﴾
(آل عمران: 83)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تو کیا وہ اللہ کے دین کے علاوہ کوئی دوسرا دین چاہتے ہیں، حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب نے برضا اور بغیر رضا اسی کے سامنے گردن جھکا رکھی ہے، اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔“
حدیث: 1
«عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم سلوني فهابوه أن يسألوه، فجاء رجل فجلس عند ركبتيه فقال: يا رسول الله! ما الإسلام؟ قال: لا تشرك بالله شيئا وتقيم الصلوة وتؤتي الزكوة وتصوم رمضان قال صدقت، قال: يا رسول الله! ما الإيمان؟ قال: أن تؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث وتؤمن بالقدر كله قال: صدقت قال: يا رسول الله! ما الإحسان؟ قال: أن تخشى الله كأنك تراه فإنك إن لا تكن تراه فإنه يراك! قال: صدقت، قال: يا رسول الله! متى تقوم الساعة؟ قال: ما المسئول عنها بأعلم من السائل وسأحدثك عن أشراطها: إذا رأيت المرأة تلد ربها فذاك من أشراطها وإذا رأيت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الأرض فذاك من أشراطها وإذا رأيت رعاء البهم يتطاولون فى البنيان فذاك من أشراطها فى خمس من الغيب لا يعلمهن إلا الله ثم قرأ: ﴿إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾ إلى آخر السورة» (لقمان: 34)
قال: ثم قام الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ردوه على فالتمس فلم يجدوه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا جبريل عليه السلام أراد أن تعلموا إذا لم تسألوا.
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 99، جامع الاصول، رقم: 10۔
”حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: مجھ سے پوچھ لو۔ صحابہ کرام رضي الله عنهم نے آپ سے سوال کرنے میں ہیبت محسوس کی (آپ کی عظمت کی بنا پر سوال نہ کیا) تو ایک آدمی آیا اور آپ کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا، پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، نماز کا اہتمام کرے، زکاۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ اور مرنے کے بعد اٹھنے کا یقین رکھے اور ہر قسم کی تقدیر کو تسلیم کرے۔ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرے، گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے، بلا شبہ اگرچہ تو اسے نہیں دیکھ رہا ہے وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے (اور اصل چیز آقا و مالک کا دیکھنا ہے)۔ اس نے کہا: آپ نے صحیح فرمایا۔ پوچھا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ نے فرمایا: جس سے قیامت کے (وقوع) بارے میں پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا اور میں تمہیں اس کی علامات بتا دیتا ہوں، جب تو دیکھے کہ لونڈی اپنے آقا کو جن رہی ہے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب تو دیکھے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، بہرے، گونگے، زمین کے بادشاہ ہیں، تو یہ بھی اس کی علامات میں سے ہے اور جب تو دیکھے کہ بھیڑ بکریوں کے چرواہے، عمارات بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ قیامت ان پانچ غیبی چیزوں میں سے ہے، جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے آیت تلاوت کی: قیامت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے، اور کوئی شخص نہیں جانتا وہ آنے والے کل کیا کرے گا، اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے وہ کس زمین میں (کہاں) فوت ہوگا۔ بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا خبر دینے والا ہے۔ (لقمان: 34) پھر وہ آدمی اٹھ کر چلا گیا، تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ اسے تلاش کیا گیا تو وہ صحابہ کرام رضي الله عنهم کو نہ ملا۔ اس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: یہ جبریل عليه السلام تھے، انہوں نے چاہا کہ تم (دین) سیکھ لو، کیونکہ تم نے سوال نہ کیا تھا۔ “
باب بيان الصلوة التى هي أحد أركان الإسلام
ان نمازوں کا بیان جو اسلام کا ایک رکن ہیں
وقال الله تعالى: ﴿فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ﴾
(طه: 130)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پس کفار مکہ آپ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے، اور اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرنے کے لیے تسبیح پڑھیے، آفتاب طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے کچھ اوقات میں بھی تسبیح پڑھیے، اور دن کی ابتدا اور انتہا کے وقت، تاکہ آپ خوش رہیں۔“
حدیث: 2
«وعن طلحة بن عبيد الله رضى الله عنه يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد ثائر الرأس نسمع دوي صوته ولا نفقه ما يقول حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو يسأل عن الإسلام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خمس صلوات فى اليوم والليلة فقال: هل على غيرهن؟ قال: لا إلا أن تطوع وصيام شهر رمضان فقال: هل على غيره؟ فقال: لا إلا أن تطوع وذكر له رسول الله صلى الله عليه الزكوة فقال: هل على غيرها؟ قال: لا إلا أن تطوع قال: فأدبر الرجل وهو يقول: والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفلح إن صدق»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 100، صحیح البخاری، کتاب الإيمان، باب الزكاة في الإسلام برقم: 46
”اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس ایک نجدی آدمی آیا، جس کے بال پراگندہ تھے، اس کی آواز کی بھنبھناہٹ ہم سن رہے تھے اور وہ جو کچھ کہہ رہا تھا اس کو ہم سمجھ نہیں رہے تھے، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے قریب آیا وہ آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ تو اس نے پوچھا: میرے ذمہ ان کے علاوہ بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، الا یہ کہ تو نفلی نماز ادا کرے، ماہ رمضان کے روزے رکھے۔ تو اس نے دریافت کیا، کیا میرے ذمہ اس کے علاوہ روزے بھی ہیں؟ فرمایا: نہیں الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔ اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اسے زکاۃ کے بارے میں بتایا، تو اس نے سوال کیا کیا میرے ذمہ زکاۃ کے سوا صدقہ بھی فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ ہاں اگر تم نفلی صدقہ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں وہ آدمی یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا: اللہ کی قسم نہ میں اس پر اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کمی۔ تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کامیاب ہوا اگر سچا ہے۔“ “
باب السؤال عن أركان الإسلام
ارکان اسلام کے بارے میں سوال کرنے کا بیان
حدیث: 3
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: نهينا أن نسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء فكان يعجبنا أن يجيء الرجل من أهل البادية العاقل فيسأله ونحن نسمع فجاء رجل من أهل البادية فقال: يا محمد أتانا رسولك فزعم لنا أنك تزعم أن الله أرسلك؟ قال: صدق قال: فمن خلق السماء؟ قال: الله قال: فمن خلق الأرض؟ قال: الله قال: فمن نصب هذه الجبال وجعل فيها ما جعل؟ قال: الله قال: فبالذي خلق السماء وخلق الأرض ونصب هذه الجبال الله أرسلك؟ قال: نعم قال: وزعم رسولك أن علينا خمس صلوات فى يومنا وليلتنا قال: صدق قال: فبالذي أرسلك الله أمرك بهذا؟ قال: نعم قال: وزعم رسولك أن علينا زكوة فى أموالنا قال: صدق قال: فبالذي أرسلك الله أمرك بهذا؟ قال: نعم قال: وزعم رسولك أن علينا صوم شهر رمضان فى سنتنا قال: صدق قال: فبالذي أرسلك الله أمرك بهذا؟ قال: نعم قال: وزعم رسولك أن علينا حج البيت من استطاع إليه سبيلا قال: صدق قال: ثم ولي قال: والذي بعثك بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص منهن فقال النبى صلى الله عليه وسلم: لئن صدق ليدخلن الجنة»
”اور حضرت انس بن مالک رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ ہمیں (بلا ضرورت) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سوال کرنے سے روک دیا گیا، تو ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھ دار بدوی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سوال کرے اور ہم سنیں، تو ایک بدوی آیا اور کہنے لگا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ کا ایلچی ہمارے پاس آیا، اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنایا ہے۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ اس نے پوچھا: تو آسمان کس نے بنایا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔ اس نے کہا: تو زمین کو کس نے بنایا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔ اس نے سوال کیا تو یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں، اور ان میں جو کچھ رکھا ہے کس نے رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے۔ بدوی نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آسمان بنایا، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے، کیا اللہ ہی نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے پوچھا آپ کے قاصد نے کہا کہ ہمارے ذمہ ، ہمارے دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے درست کہا۔ اس نے کہا: تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے، کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا (کہ ہم پانچ نمازیں ادا کریں) آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے سوال کیا، آپ کے ایلچی کا گمان ہے کہ ہمارے ذمہ، ہ مارے مالوں کی زکاۃ ہے؟ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ بدوی نے کہا: تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اعرابی نے کہا: آپ کے پیغامبر کا خیال ہے کہ ہمارے سال میں ہمارے ذمہ ماہ رمضان کے روزے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے صحیح کہا۔ اس نے کہا تو جس نے آپ کو بھیجا ہے اس کی قسم! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بدوی نے کہا: آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہمارے ذمہ بیت اللہ کا حج ہے اس پر جو اس تک پہنچ سکتا ہو۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ صحابی بیان کرتے ہیں پھر وہ واپس چل پڑا اور چلتے چلتے کہا: اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میں ان پر اضافہ نہیں کروں گا نہ ہی ان میں کمی کروں گا۔ تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو یقیناً جنت میں داخل ہوگا۔ “
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 102، صحیح البخاری، کتاب العلم، باب ما جاء في العلم وقوله تعالى ﴿وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا﴾ تعليقا برقم: 63
حدیث: 4
«وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإقام الصلوة وإيتاء الزكوة وحج البيت وصوم رمضان.»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 113
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ (بندگی کے لائق) نہیں، اور بے شک محمد صلى الله عليه وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ “
باب الدعاء إلى الشهادتين وشرائع الإسلام
شہادتین (توحید و رسالت) کی گواہی اور اسلام کے احکام کی دعوت دینا
وقال الله تعالى: ﴿ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴾
(فصلت: 33)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور اس آدمی سے زیادہ اچھی بات والا کون ہو سکتا ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا، اور عمل صالح کیا، اور کہا کہ میں بے شک مسلمانوں میں سے ہوں۔“
حدیث: 5
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن معاذا رضى الله عنه قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إنك تأتي قوما من أهل الكتاب فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات فى كل يوم وليلة فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد فى فقرائهم فإن هم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 121، صحیح البخاری، کتاب الزكاة، باب وجوب الزكاة برقم: 1395
”اور حضرت معاذ رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بھیجا اور فرمایا: تم اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے پاس جا رہے ہو، تو انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی بندگی کا مستحق نہیں اور میں (محمد صلى الله عليه وسلم) اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتلانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن ، رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس کو تسلیم کر لیں تو ان کو بتلانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ (زکاۃ) فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے محتاجوں کی طرف لوٹایا جائے گا۔ پھر جب وہ اس کو قبول کر لیں تو ان کے بہترین مالوں سے دور رہنا (زکاۃ میں بہترین مال وصول نہ کرنا) اور مظلوم کی دعا (بددعا) سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب (پردہ) حائل نہیں۔ “
حدیث: 6
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله فمن قال: لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 125، سنن النسائي (المجتبى)، 6/5، کتاب الجهاد، باب وجوب الجهاد
”اور حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک کہ وہ لا إله إلا الله کی شہادت دیں۔ جس نے لا إله إلا الله کہہ لیا، اس کی میری طرف سے مال و جان محفوظ ہو گئے، الا یہ کہ اس کا (کلمہ) حق ہوا اور اس کا مواخذہ اللہ تعالیٰ کرے گا۔ “
باب الدليل على صحة إسلام من حضره الموت ما لم يشرع فى النذع وهو العرغرة ونسب جواز الاستغفار للمشركين والدليل على أن من مات على الشرك فهو من أصحاب الجحيم ولا ينفعه من ذلك شيء من الوسائل
جس کی موت کا وقت آ گیا لیکن ابھی تک جان کنی طاری نہیں ہوئی، اس کا اسلام لانا صحیح ہے اور مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کرنے کی اجازت منسوخ ہے، اور اس بات کی دلیل کہ جو مشرک فوت ہوا وہ جہنمی ہے اور اس کو جہنم سے کسی قسم کا وسیلہ نجات نہیں دلوا سکے گا
قال الله تعالى: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴾ (التوبة: 113)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ مشرکوں کے لیے یہ بات کھل کر سامنے آ جانے کے بعد کہ وہ جہنمی ہیں دعائے مغفرت کریں، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔“
قال الله تعالى: ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (القصص: 56)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ہیں، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔“
حدیث: 7
وعن سعيد بن المسيب عن أبيه قال: لما حضرت أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد عنده أبا جهل وعبد الله بن أبى أمية بن المغيرة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عم قول: لا إله إلا الله كلمة أشهد لك بها عند الله فقال أبو جهل وعبد الله بن أبى أمية: يا أبا طالب أترغب عن ملة عبد المطلب؟ فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرضها عليه ويعيد له تلك المقالة حتى قال أبو طالب آخر ما كلمهم: هو على ملة عبد المطلب وأبى أن يقول: لا إله إلا الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما والله لأستغفرن لك ما لم أنه عنك فأنزل الله تبارك وتعالى: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ وأنزل الله تعالى فى أبى طالب فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 132، صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب: إذا قال المشرك عند الموت: لا إله إلا الله، رقم: 1360
”اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے اپنے باپ سے روایت سنائی کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آ پہنچا تو اس کے پاس رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تشریف لائے۔ ابو طالب کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ بھی موجود تھے۔ پس رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اے چچا! ایک بار لا إله إلا الله کہو، میں تمہارے حق میں اللہ کے ہاں اس کے سبب تمہارے (ایمان کی) گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: اے ابو طالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین کو چھوڑو گے؟ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم مسلسل اس کو کلمہ پیش کرتے رہے اور اپنی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ ابو طالب نے جو آخری بات ان سے کی وہ یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کی ملت پر قائم ہے۔ اور لا إله إلا الله کہنے سے انکار کر دیا۔ تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ہاں، اللہ کی قسم! میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا، جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: نبی اور مسلمانوں کے لیے مشرکین کی مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان کے سامنے ان کا جہنمی ہونا واضح ہو چکا ہے۔ (التوبة: 113) اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت بھی اتاری اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو مخاطب فرمایا: ہر وہ شخص جس کو آپ چاہیں آپ اسے راہ راست پر نہیں لا سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے راہ راست پر لے آتا ہے اور وہ راہ یاب ہونے والوں کو خوب جانتا ہے۔“ (القصص: 56)
حدیث: 8
«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه: أن نبي الله صلى الله عليه وسلم ومعاذ بن جبل رضى الله عنه رديفه على الرحل فقال: يا معاذا قال: لبيك يا رسول الله! وسعديك قال: يا معاذا قال: لبيك يا رسول الله! وسعديك قال: يا معاذا قال: لبيك يا رسول الله! وسعديك قال: ما من عبد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله إلا حرم الله عليه النار قال: يا رسول الله أفلا أخبر بها الناس فيستبشروا؟ قال: إذا يتكلوا فأخبر بها معاذ رضى الله عنه عند موته تأثما»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 148، صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية أن لا يفهموا، رقم: 128
”اور حضرت انس رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت معاذ رضي الله عنه کو جبکہ وہ پالان پر آپ کے پیچھے سوار تھے، پکارا: اے معاذ! انہوں نے عرض کیا: لبيك يا رسول الله وسعديك ۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے پھر فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کیا: لبيك يا رسول الله وسعديك ۔ تین دفعہ ایسا ہوا، پھر آپ نے فرمایا: جو کوئی سچے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلى الله عليه وسلم اس کے رسول ہیں، تو اللہ نے دوزخ پر ایسے شخص کو حرام کر دیا ہے۔ حضرت معاذ رضي الله عنه نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں تا کہ وہ سب خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: پھر وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ پھر حضرت معاذ رضي الله عنه نے کتمان علم کے گناہ کے خوف سے اپنے آخری وقت میں یہ حدیث بیان کر دی۔ “
باب الدليل على أن من رضي بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولا فهو مؤمن وإن ارتكب المعاصي الكبائر
جو شخص اللہ تعالیٰ کی الوہیت، اسلام کے دین اور محمد صلى الله عليه وسلم کے رسول ہونے پر راضی اور مطمئن ہے تو وہ مومن ہے، اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو
حدیث: 9
«وعن العباس بن عبد المطلب رضى الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا.»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 151، سنن الترمذی، ابواب الإيمان، باب من ذاق طعم الإيمان، رقم: 2623
”اور حضرت عباس بن عبدالمطلب رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، آپ فرمایا: اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد صلى الله عليه وسلم کو اپنا رسول ماننے پر دل سے راضی ہو گیا۔ “
باب جامع أوصاف الإسلام
اسلام کے جامع اوصاف کا بیان
قال الله تعالى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ﴾ (فصلت: 30)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس (عقیدہ توحید اور عمل صالح) پر جمے رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو، اور اس جنت کی خوشخبری سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔“
حدیث: 10
«وعن سفيان بن عبد الله الثقفي رضى الله عنه قال: قلت: يا رسول الله قل لي فى الإسلام قولا لا أسأل عنه أحدا بعدك وفي حديث أبى أسامة: غيرك قال: قل آمنت بالله ثم استقم.»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 159، سنن الترمذی، ابواب الزهد، باب في حفظ اللسان، رقم: 2410
”اور حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضي الله عنه سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی (تسلی بخش) بات بتائیے کہ پھر آپ کے بعد مجھے کسی سے اسلام کے متعلق سوال نہ کرنا پڑے (ابو اسامہ کی روایت میں بعدك کی بجائے غيرك آپ کے سوا ہے)۔ آپ نے فرمایا: آمنت بالله (میں اللہ پر ایمان لایا) کہہ کر اس پر پختگی کے ساتھ قائم رہو یا جم جاؤ۔ “
باب بيان تفاضل الإسلام و أى أموره أفضل
اسلام کے احکام وخصائل کی ایک دوسرے پر فضیلت اور ان میں سے سب سے افضل کام
حدیث: 11
«وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أى الإسلام خير؟ قال: تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 160، صحیح البخاری، کتاب الإيمان، باب إطعام الطعام من الإسلام، رقم: 12
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا: اسلام کی کون سی خوبی اور خصلت بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: لوگوں کو کھانا کھلانا، ہر مسلمان کو سلام کہنا، تمہارا شناسا ہو یا نا واقف و اجنبی۔ “
حدیث: 12
«وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما يقول: إن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أى المسلمين خير؟ قال: من سلم المسلمون من لسانه ويده»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 161
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا: کون سا مسلمان بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں۔ “
حدیث: 13
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 169، صحیح البخاری، کتاب الإيمان، باب حب الرسول صلى الله عليه وسلم من الإيمان، رقم: 15
”اور حضرت انس بن مالک رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے ماں باپ اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ “
باب الدليل على أن من خصال الإيمان أن تحب لأخيه المسلم ما تحب لنفسه من الخير
ایمانی خوبیوں میں سے یہ بھی ہے کہ جو اچھی چیز اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرے
حدیث: 14
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه أو قال لجاره ما يحب لنفسه»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 170، صحیح البخاری، کتاب الإيمان، باب من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه، رقم: 13
”اور حضرت انس بن مالک رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے پڑوسی یا فرمایا اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جسے وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ “
باب بيان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون وأن محبة المؤمنين من الإيمان وأن إفشاء السلام سبب لحصولها
جنت میں صرف مومن داخل ہوں گے اور مومنوں سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے اور السلام علیکم کو عام رواج دینا محبت کا باعث ہے
حدیث: 15
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا ولا تؤمنوا حتى تحابوا أولا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم؟ أفشوا السلام بينكم»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 194، سنن ابن ماجه، المقدمة، باب في الإيمان، رقم: 68
”اور حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جب تک تم ایمان نہیں لاؤ گے جنت میں داخل نہیں ہو سکو گے، اور تم اس وقت تک صحیح مومن نہیں ہو گے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہیں کرو گے۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اس پر عمل پیرا ہو گے تو باہمی محبت کرنے لگو گے؟ ایک دوسرے کو بکثرت سلام کہو۔ “
باب بيان أن الدين النصيحة
دین خیر خواہی اور خلوص کا نام ہے
حدیث: 16
«وعن تميم الداري رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الدين النصيحة قلنا لمن؟ قال: لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 194، سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب في النصيحة، رقم: 4944
”اور حضرت تمیم داری رضي الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے پوچھا: کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانوں کی۔ “
حدیث: 17
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: آية المنافق ثلاث وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 213، سنن ترمذی، کتاب الإيمان، باب ما جاء في علامة المنافق ولم يذكر فيه وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم، رقم: 2631
”اور حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه نے حدیث بیان کی اور کہا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: منافق کی علامات تین ہیں اگرچہ وہ روزہ رکھتا ہو، نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ “
باب بيان حال إيمان من قال لأخيه المسلم يا كافر
اپنے مسلمان بھائی کو، اے کافر! کہنے والے کے ایمان کی حالت
حدیث: 18
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا أكفر الرجل أخاه فقد باء بها أحدهما»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 215
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جب ایک آدمی اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے ایک اس کا مستحق ہوگا۔ “
باب بيان حال إيمان من رغب عن أبيه وهو يعلم
اپنے باپ سے دانستہ بے رغبتی کرنے والے کے ایمان کی حالت
حدیث: 19
«وعن أبى ذر رضى الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر ومن ادعى ما ليس له فليس منا وليتبوأ مقعده من النار ومن دعا رجلا بالكفر أو قال: عدو الله وليس كذلك إلا حار عليه»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 287، صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب: نسبة اليمن إلى إسماعيل، رقم: 3317
”اور حضرت ابو ذر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے سنا: جو شخص دانستہ اپنے باپ کی بجائے کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس نے کفر کیا، اور جو ایسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کی نہیں ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے، اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے، اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر پکارتا ہے یا اللہ کا دشمن کہتا ہے، حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو کفر اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ “
باب بيان قول النبى صلى الله عليه وسلم: سباب المسلم فسوق وقاتله كفر
حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے: مسلمان کو برا بھلا کہنا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے
حدیث: 20
«وعن عبد الله بن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سباب المسلم فسوق وقتاله كفر قال زبيد: فقلت لأبي وائل: أنت سمعت عبد الله يرويه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم»
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 221 صحيح البخاری، کتاب الایمان، باب: خوف المؤمن من ان يحبط عمله وهو لا يشعر، رقم: 48
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔ زبید کہتے ہیں: میں نے ابو وائل سے پوچھا: کیا تو نے یہ روایت عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہوئے سنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔ “
باب بيان كفر من قال مطرنا بالنوء
جو شخص بارش کا باعث ستاروں کی گردش کو قرار دے اس کے کفر کا بیان
حدیث: 21
«وعن زيد بن خالد الجهني رضى الله عنه قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية فى إثر سماء كانت من الليل، فلما انصرف أقبل على الناس فقال: هل تدرون ماذا قال ربكم؟ قالوا: الله ورسوله أعلم. قال: قال أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته، فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، وأما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا، فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 231، صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب: یستقبل الامام الناس إذا سلم، رقم: 810
”اور حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر صبح کی جماعت کرائی، جبکہ رات کو بارش ہو چکی تھی۔ آپ نے سلام پھیر کر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو ہی زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندوں میں سے کچھ کی صبح مجھ پر ایمان پہ ہوئی اور بعض کی میرے ساتھ کفر پر۔ جس شخص نے کہا: ہم پر بارش اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے باعث ہوئی، تو اس نے مجھ پر ایمان رکھا اور ستارے کے ساتھ کفر کیا، اور جس نے کہا: ہم پر بارش فلاں فلاں ستارے کے غروب و طلوع سے ہوئی، اس نے میرے ساتھ کفر کا برتاؤ کیا اور ستاروں پر ایمان رکھا۔ “
باب الدليل على أن حب الأنصار وعلي رضي الله عنهم من الإيمان وعلاماته، وبغضهم من علامات النفاق
باب: انصار اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایمان کا حصہ اور علامت ہے اور ان سے بغض و نفرت نفاق کی علامت ہے
حدیث: 22
«وعن أنس رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: آية المنافق: بغض الأنصار، وآية المؤمن: حب الأنصار»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 235، صحیح البخاری، کتاب الإيمان، باب علامة الإيمان حب الانصار، رقم: 17۔
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی نشانی انصار سے بغض ہے، اور مومن کی علامت انصار سے محبت ہے۔ “
حدیث: 23
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اجتنبوا السبع الموبقات. قيل: يا رسول الله وما هن؟ قال: الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التى حرم الله إلا بالحق، وأكل مال اليتيم، وأكل الربا، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات الغافلات المؤمنات»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 262، صحیح البخاری، کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا﴾ (النساء: 10)، رقم: 2615
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات تباہ کن چیزوں سے بچو۔ سوال ہوا وہ کون سی ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک، جادو، جس جان کے قتل کو اللہ نے حرام ٹھہرایا اس کا ناجائز قتل، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، لڑائی کے دن دشمن کو پشت دکھانا (بھاگ جانا) اور پاک دامن بے خبر مومن عورتوں پر الزام تراشی کرنا۔ “
حدیث: 24
«وعن جابر رضى الله عنه قال: أتى النبى صلى الله عليه وسلم رجل فقال: يا رسول الله ما الموجبتان؟ قال: من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، ومن مات يشرك بالله شيئا دخل النار»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 269
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جنت کو واجب ٹھہرانے والی دو صفات کون سی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: جو شرک نہ کرتا ہوا مرا وہ جنت میں داخل ہو گا، اور جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہراتے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔ “
باب: غلظة تحريم قتل الإنسان نفسه وأن من قتل نفسه بشيء عذب به فى النار وأنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة
باب: خودکشی کی حرمت کی تشدید، انسان جس آلہ (چیز) سے اپنے آپ کو قتل کرے گا، آگ میں اس کو اس کے ذریعہ سے عذاب ہو گا اور جنت میں صرف مسلمان شخص داخل ہو گا
حدیث: 25
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قتل نفسه بحديدة فحديدته فى يده يتوجأ بها فى بطنه فى نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحساه فى نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى فى نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 300، سنن الترمذی، کتاب الطب، باب ما جاء فيمن قتل نفسه بسم أو غيره، وقال: هذا حدیث حسن صحیح، رقم: 2044
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو لوہے (کے ہتھیار) سے قتل کیا تو اس کا لوہا اس کے ہاتھ میں ہو گا، آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اس کو اپنے پیٹ میں گھونپے گا، جس نے زہر پی کر خودکشی کی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اس کو گھونٹ گھونٹ کر کے پیئے گا، اور جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر قتل کیا، وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں پہاڑ سے گرے گا۔ “
باب الحث على المبادرة بالأعمال قبل تظاهر الفتن
باب: فتنوں کے ظہور سے پہلے اعمال صالحہ کی طرف لپکنے کی ترغیب
حدیث: 26
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم، يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا، أو يمسي مؤمنا ويصبح كافرا، يبيع دينه بعرض من الدنيا»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 313
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان فتنوں سے پہلے پہلے جو رات کے تاریک ٹکڑوں کی طرح چھا جائیں گے، نیک اعمال کر لو ، صبح کو آدمی مسلمان ہو گا اور شام کو کافر، یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر، اپنا دین ایمان دنیوی سامان کے عوض بیچ ڈالے گا۔ “
باب هل يؤاخذ بأعمال الجاهلية
باب: کیا جاہلیت کے دور کے اعمال کا مواخذہ ہو گا؟
حدیث: 27
«وعن عبد الله رضى الله عنه قال: قال أناس لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله أنؤاخذ بما عملنا فى الجاهلية؟ قال: أما من أحسن منكم فى الإسلام فلا يؤاخذ بها ومن أساء أخذ بعمله فى الجاهلية والإسلام.»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 318، صحیح البخاری، کتاب استتابة المرتدین، باب إثم من أشرك باللہ وعقوبته في الدنيا والآخرة، رقم: 6523
”اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے جاہلیت کے عملوں پر مواخذہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: جس نے اسلام لانے کے بعد اچھے اعمال کیے، اس کے جاہلیت کے اعمال کا مواخذہ نہیں ہو گا اور جس نے برے عمل کیے اس کے جاہلیت اور اسلام دونوں کے اعمال کا مواخذہ ہو گا۔ “
باب كون الإسلام يهدم ما قبله وكذا الهجرة والحج
باب: اسلام اپنے سے قبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اسی طرح ہجرت اور حج بھی
حدیث: 28
وعن ابن عباس رضي الله عنهما، أن ناسا من أهل الشرك قتلوا فأكثروا، وزنوا فأكثروا، ثم أتوا محمدا صلى الله عليه وسلم فقالوا: إن الذى تقول وتدعو لحسن، ولو تخبرنا أن لما عملنا كفارة، فنزل: ﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا﴾ (الفرقان: 68) ونزل: ﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ﴾ (الزمر: 53)
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 322، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب: قولہ تعالی ﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ﴾ رقم 4532
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کچھ مشرک لوگوں نے (جاہلیت کے دور میں) بہت قتل کیے، بہت زنا کیے، پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے آپ جو کچھ فرماتے ہیں اور جس راہ کی دعوت دیتے ہیں، بہت اچھا ہے۔ اگر آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ جو عمل ہم کر چکے ہیں ان کا کفارہ ہے تو ہم ایمان لے ائیں، تو یہ آیت نازل ہوئی: جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے محفوظ قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق طور پر ، اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسا کرے گا اس کو سزا سے سابقہ پڑے گا۔ (الفرقان: 68) اور نازل ہوا اے میرے بندو ! جو اپنے اوپر زیادتیاں کر چکے ہو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔“ (الزمر: 53)
باب بيان حكم عمل الكافر إذا أسلم بعد
باب: اسلام لانے کے بعد کافر کے سابقہ اعمال کا حکم
حدیث: 29
«وعن حكيم بن حزام رضى الله عنه أخبره أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أرأيت أمورا كنت أتحنث بها فى الجاهلية، هل لي فيها من شيء؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أسلمت على ما أسلفت من خير»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 323، صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب من تصدق في الشرك ثم أسلم، رقم: 1369
”اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بتائیے وہ امور جو میں جاہلیت کے دور میں گناہ سے بچنے کی خاطر کرتا تھا، کیا مجھے ان کا کچھ اجر ملے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تم پہلے نیکیاں کر چکے ہو، ان کے ساتھ اسلام لائے ہو۔ “
باب وعيد من اقتطع حق مسلم بيمين فاجرة بالنار
باب: جس نے جھوٹی قسم سے مسلمان کا حق مارنے کی خاطر اٹھائی اس کے لیے آگ کی وعید ہے
حدیث: 30
«وعن أبى أمامة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه، فقد أوجب الله له النار، وحرم عليه الجنة، فقال له رجل: وإن كان شيئا يسيرا يا رسول الله؟ قال: وإن قضيب من أراك»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 353، سنن ابن ماجہ، کتاب الأحکام، باب من حلف على یمین فاجرة لیقتطع بہا مالا، رقم: 2324
”اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی قسم سے کسی مسلمان کا حق دبایا تو اللہ نے اس کے لیے دوزخ کو لازم کر دیا اور جنت کو اس کے لیے حرام ٹھہرایا۔ ایک شخص نے عرض کیا: اگرچہ وہ حقیر چیز ہو، اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی شاخ ہو۔ “
باب بيان أن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا ، وانه يارذ بين المسجدين
باب: کہ اسلام کا آغاز غربت کی حالت میں ہوا اور وہ آخر دو مسجدوں کے درمیان سمٹ جائے گا
حدیث: 31
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بدأ الإسلام غريبا وسيعود كما بدأ غريبا فطوبى للغرباء»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 372، سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب بدأ الإسلام غریبا، رقم: 3986
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کا آغاز غربت (اجنبیت) کی حالت میں ہوا اور وہ یقیناً (آخر میں) اجنبی بن کر رہ جائے گا، تو اجنبی بن کر رہ جانے والوں کے لیے مسرت و شادمانی ہو۔ “
باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب
باب کہ مسلمانوں کی ایک جماعت بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہو گی
حدیث: 32
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يدخل الجنة من أمتي سبعون ألفا، زمرة واحدة منهم، على صورة القمر»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 523
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے ستر ہزار افراد جنت میں داخل ہوں گے، ایک ہی گروہ چاند سی شکل و صورت۔ “
باب كون هذه الأمة نصف أهل الجنة
باب: جنت کے آدھے لوگ اس امت کے ہوں گے
حدیث: 33
«وعن عبد الله رضى الله عنه قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما ترضون أن تكونوا ربع أهل الجنة؟ قال: فكبرنا. ثم قال: أما ترضون أن تكونوا ثلث أهل الجنة؟ قال: فكبرنا. ثم قال: إني لأرجو أن تكونوا شطر أهل الجنة، وسأخبركم عن ذلك، ما المسلمون فى الكفار إلا كشعرة بيضاء فى ثور أسود، أو كشعرة سوداء فى ثور أبيض»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 529، صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب الحشر، رقم: 6528
”اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: کیا تم جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہونے پر راضی ہو؟ ہم نے (خوشی سے) اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو؟ تو ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ نے فرمایا: مجھے امید ہے تم جنتیوں کا نصف ہو گے، اور میں تمہیں اس کا سبب بتاتا ہوں، مسلمانوں کی کافروں سے نسبت ایسی ہے جیسے ایک سیاہ بیل میں ایک سفید بال ہو یا ایک سفید بیل میں ایک سیاہ بال ہو۔“
باب تحريم التحاسد والتباغض والتدابر
باب کہ باہمی حسد اور بغض اور روگردانی کرنا جائز نہیں ہے
حدیث: 34
«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6526، صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب الہجرة وقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یحل لرجل أن یہجر أخاہ فوق ثلاث، رقم: 6076
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور اللہ کے بندے، بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلقات منقطع کرے۔ “
باب تحريم خذل المسلم واحتقاره
مسلمان کو رسوا کرنے اور حقیر جاننے کی حرمت کا بیان
حدیث: 35
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6543، سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب القناعة، رقم: 4143
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مال و دولت کو نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔ “
باب تحريم الظلم
ظلم کی حرمت کا بیان
حدیث: 36
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يسلمه، من كان فى حاجة أخيه، كان الله فى حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة، فرج الله عنه بها كربة من كرب يوم القيامة، ومن ستر مسلما، ستره الله يوم القيامة»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6578، صحیح البخاری، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ، رقم: 2442
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہتا ہے، اللہ اس کی حاجت روائی کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے مصائب میں سے کوئی مصیبت اس کے باعث دور فرمائے گا۔ اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ “
باب من حمل علينا السلاح
باب جو ہم پر اسلحہ اٹھائے
حدیث: 37
«وعن أبى موسى رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا مر أحدكم فى مسجدنا، أو فى سوقنا، ومعه نبل فليمسك على نصالها بكفه، أن يصيب أحدا من المسلمين منها بشيء، أو قال: ليقبض على نصالها»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6665، صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب المرور في المسجد، رقم: 452
اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ہماری مساجد یا ہمارے بازاروں سے تیر لے کر گزرے تو وہ اپنی ہتھیلی سے اس کے پیکان (نوک) کو پکڑ لے، تاکہ اس سے کسی مسلمان کو نقصان نہ پہنچے، یا آپ نے فرمایا: اس کے پیکان پر قبضہ کر لے۔“
حدیث: 38
«وعن أبى موسى رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من حمل علينا السلاح فليس منا»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 282
”اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ “
باب: المرء مع من أحب
باب ہر شخص اس کے ساتھ ہو گا جس سے اس کی محبت ہے
حدیث: 39
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله متى الساعة؟ قال: وما أعددت للساعة؟ قال: حب الله ورسوله، قال: فإنك مع من أحببت. قال أنس: فما فرحنا بعد الإسلام فرحا أشد من قول النبى صلى الله عليه وسلم: فإنك مع من أحببت. قال أنس: فأنا أحب الله ورسوله، وأبا بكر وعمر رضي الله عنهما، فأرجو أن أكون معهم وإن لم أعمل بأعمالهم»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6713، صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي رضی اللہ عنہ، رقم: 3688
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے دریافت کیا: اور تو نے قیامت کے لیے کیا تیار کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔ آپ نے فرمایا: تو انہی کے ساتھ ہو گا، جن سے تجھے محبت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اسلام لانے کے بعد ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان تو تو انہیں کے ساتھ ہوگا ، جن سے تجھے محبت ہے ، سے بڑھ کر کسی چیز سے خوشی نہیں ہوتی، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں چونکہ میں اللہ، اس کے رسول اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں، اس لیے ان کی معیت کا امیدوار ہوں، اگرچہ ان جیسے اعمال نہیں کر سکے۔ “
باب الاعتصام بالكتاب والسنة
کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنا
حدیث: 40
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أبغض الناس إلى الله ثلاثة: ملحد فى الحرم، ومبتغ فى الإسلام سنة الجاهلية، ومطلب دم امرئ بغير حق ليهريق دمه»
صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 6882
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ ناپسندیدہ تین انسان ہیں: حرم پاک میں کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا، دین اسلام میں جاہلیت کا طریقہ اختیار کرنے والا اور کسی شخص کا ناحق خون بہانے کے لیے کوشاں رہنے والا۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين