حدیث "مجھے دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں” کی مکمل تحقیق و تخریج
سوال:
ایک حدیث سے متعلق تحقیق درکار ہے جس کا مفہوم یہ ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«حبب الی من دنیاکم ثلاث: الطیب، والنساء، وجعلت قرة عینی فی الصلوة»
*”مجھے تمہاری دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں: خوشبو، بیویاں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔“*
اس کے بعد حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اقوال بھی اس مجلس میں ذکر کیے گئے ہیں۔ آخر میں جبرائیل علیہ السلام یہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں میں تین خصلتیں پسند ہیں۔
یہ روایت کتاب "المنبہات لابن حجر” سے منسوب ہے۔ گزارش ہے کہ اس روایت کی مکمل تحقیق و تخریج بیان فرمائیں تاکہ حقیقت واضح ہو۔
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:
1: اس روایت کا حدیث کی مستند کتب میں موجود نہ ہونا
یہ طویل روایت حدیث کی کسی معتبر اور مستند کتاب میں سند کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی کی طرف منسوب کتاب "المنبہات” میں یہ روایت بغیر کسی سند و حوالہ کے ذکر کی گئی ہے۔
حوالہ: ’’المنبہات‘‘ ص۲۱، ۲۲ (طبع ۱۲۸۲ھ)
2: کتاب "المنبہات” کا حافظ ابن حجر سے نسبت کا عدم ثبوت
(الف) سوانح نگاروں کا سکوت
جن اہلِ علم نے حافظ ابن حجر العسقلانی کی سوانح عمری اور تصانیف لکھی ہیں جیسے:
◈ امام سخاوی (الضوء اللامع)
◈ امام شوکانی (البدر الطالع)
◈ اسماعیل پاشا بغدادی (هدية العارفين)
◈ خیر الدین زرکلی (الاعلام)
ان میں کسی ایک نے بھی "المنبہات” کو حافظ ابن حجر کی تصنیف کے طور پر ذکر نہیں کیا۔
(ب) محققین کی آراء
◈ شیخ ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان نے اسے حافظ ابن حجر کی طرف جھوٹا منسوب قرار دیا ہے۔
حوالہ: کتب حذر منہا العلماء (جلد ۲، صفحہ ۳۲۶)
◈ شیخ جاسم الدوسری اور شیخ عبدالرحمن فاخوری نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔
حوالہ: (ایضاً ص۳۲۷)
3: "المنبہات” کے آغاز میں مذکور عبارت
اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں درج ہے:
◈ نام: "المنبهات علی الاستعداد لیوم المعاد”
◈ طرزِ تحریر: دو دو، تین تین سے لے کر دس دس اجزاء پر مبنی نصائح
4: "کشف الظنون” میں درج حوالہ
مشہور ترکی مؤرخ حاجی خلیفہ کاتب چلپی حنفی نے ’’کشف الظنون‘‘ میں لکھا:
"المنبهات علی الاستعداد لیوم المیعاد للنصح والوداد، مختصر لزین القضاة احمد بن محمد الحجی (یا الحجری)…”
(کشف الظنون، جلد ۲، صفحہ ۱۸۴۸)
یعنی یہ کتاب احمد بن محمد الحجی یا الحجری کی تالیف ہے جو ایک مجہول شخصیت ہے۔ ان کے حالات کسی مستند کتاب میں موجود نہیں۔
5: حافظ ابن حجر کا تبصرہ "ثلاث” والی روایت پر
حافظ ابن حجر نے خود "ثلاث” والی زیادتی کی روایت کو بے سند قرار دیا ہے:
التلخیص الحبیر (جلد ۳، صفحہ ۱۱۶، حدیث نمبر ۱۴۳۵)
6: روایت کے ماخذ کے حوالے سے الجھن
اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی (متوفی ۱۱۶۲ھ) نے اس روایت کو کتاب ’’المواہب‘‘ سے نقل کیا ہے:
"قال الطبری: خرجہ الجندی والعھدۃ علیہ”
کشف الخفاء ومزيل الإلباس، جلد ۱، صفحہ ۳۴۰، حدیث ۱۰۸۹
یہ روایت بغیر سند کے ’’الجندی‘‘ سے منقول ہے، اور "الجندی” نام کے کئی افراد ہیں۔ اس سے رسول اللہ ﷺ تک سند معلوم نہیں۔
7: بے اصل اضافے
بعض متأخر مولوی حضرات مثلاً:
◈ شبراملسی (متوفی ۱۰۸۷ھ)
◈ خفاجی وغیرہ
نے اس روایت میں مزید بے سند اضافے بھی ذکر کیے ہیں جو سراسر باطل ہیں۔
8: جلال الدین سیوطی سے منسوب روایت پر تبصرہ
حاجی خلیفہ حنفی نے بغیر کسی سند کے جلال الدین سیوطی سے نقل کیا ہے کہ:
"قسطلانی میری کتابوں سے چوری کرتا ہے۔”
کشف الظنون، جلد ۲، صفحہ ۱۸۹۷
یہ بات بے بنیاد، مردود اور جھوٹی ہے۔
9: خلاصۂ تحقیق
یہ روایت:
◈ بے اصل ہے
◈ سند سے محروم ہے
◈ موضوع (من گھڑت) ہے
یہ روایت جاہل عوام میں کسی منظم یا غیر منظم سازش کے تحت پھیلائی گئی ہے۔
10: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی وعید
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من یقل علی مالم اقل فلیتبوا مقعده من النار»
*”جس نے مجھ پر وہ بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔”*
(صحیح بخاری: ۱۰۹)
11: صحیح حدیث کا ثبوت
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے:
«حبب الی من الدنیا: النساء والطیب، وجعل قرة عینی فی الصلوة»
(سنن النسائی ۷؍۶۱، حدیث ۳۳۹۱، سندہ حسن)
(مسند احمد ۳؍۲۸۵، سندہ حسن، التلخیص الحبیر ۳؍۱۱۶، ح۴۳۵)
(الضیاء فی المختارہ ۵؍۱۱۶، ح۱۷۳۶)
دوسری صحیح روایت:
«حبب الی النساء والطیب، وجعلت قرة عینی فی الصلوة»
(سنن النسائی ۷؍۶۲، حدیث ۳۳۹۲، سندہ حسن)
(مستدرک حاکم ۲؍۱۶۰، صحیح علی شرط مسلم، موافقہ ذہبی)
نوٹ: ان صحیح احادیث کا "المنبہات” والی من گھڑت روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ نیز، نماز کا شمار دنیاوی اشیاء میں نہیں ہوتا۔
نتیجہ
◈ حدیث: "مجھے دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں” جیسی طویل روایت موضوع، من گھڑت اور جھوٹی ہے۔
◈ اس کا منبع "المنبہات” ہے جو نہ تو معتبر ہے، نہ ہی حافظ ابن حجر کی تصنیف ہے۔
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کرنا حرام اور جہنم کا باعث ہے۔
◈ اس جیسی جھوٹی روایتوں سے اجتناب ضروری ہے اور صحیح احادیث ہمارے لیے کافی ہیں۔