متفرد آدمی کے اُونچی آواز میں آمین کہنے سے متعلق فقہاء دلائل
یہ اقتباس محمد مُظفر الشیرازی (مدیر جامعہ امام بخاری، سیالکوٹ) کی کتاب نماز میں اُونچی آواز سے آمین کہنا سے ماخوذ ہے جس کے مترجم حافظ عبدالرزاق اظہر ہیں۔

اس مسئلے میں علمائے کرام کے اقوال درج ذیل ہیں:

حنفیہ کا مذہب:

احناف کا اس مسئلے میں موقف یہ ہے کہ اکیلا نماز ادا کرنے والا آمین کہے گا لیکن سراً کہے گا، جہراً اور بلند آواز سے نہیں کہے گا۔
زین الدین الحنفی، البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 331/1
احناف کے دلائل درج ذیل ہیں:
احناف نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا قال أحدكم فى الصلاة آمين… الحديث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں آمین کہے۔
سابق مصدر ۔

وجہ الاستدلال:

امام عبد الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس روایت میں متفرد کا اندراج ہے اور مخفی آمین کہنے میں اطلاق ہے، جو ہر سری اور جہری نماز کو شامل ہے اور ہر نمازی کو محیط ہے۔
سابق مصدر ۔
ان کے دلائل کا مناقشہ درج ذیل ہے:
احناف کا اس حدیث سے متفرد آدمی کے جہری نماز میں بلند آواز سے آمین کے عدم پر استدلال لینا ضعیف اور کمزور ہے، کیونکہ حدیث میں آمین کہنا مطلق بیان ہوا ہے، اس میں جہر یا عدم جہر کا تذکرہ نہیں ہے۔ تو اس حدیث کے ساتھ سری نمازوں میں آمین آہستہ کہنے پر اور جہری نمازوں میں بلند آواز سے آمین کہنے پر استدلال کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔

اس مسئلے کے بارہ میں مالکیہ کا موقف:

مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ متفرد آدمی مخفی آواز سے آمین کہے گا، بلند آواز سے نہیں کہے گا۔
محمد بن ابراہیم المالكي: تنوير المقالة في حل ألفاظ الرسالة: 37/2
ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
مالکیہ نے کہا کہ ہمارا یہ موقف ہے کہ آمین چونکہ دعا ہے اور دعا میں افضل یہی ہے کہ مخفی اور آہستہ آواز سے کی جائے۔
مصدر سابق۔
ان کے دلائل کا مناقشہ:
مالکیوں کا اس سے استدلال لینا کہ آمین دعا ہے اور دعا میں افضل یہ ہے کہ مخفی کی جائے، اس کا جواب امام کے بلند آواز سے آمین کہنے کے حکم میں گزر چکا ہے۔

شافعیہ اور حنبلیہ کا موقف:

شافعیہ اور حنبلیوں نے کہا کہ متفرد قطعی طور پر جہراً آمین کہے گا۔
محمد الخطيب: مغني المحتاج إلى معرفة ألفاظ المنهاج: 161/1، النووي، المجموع شرح المهذب: 331/3، ابن المنذر: الإقناع: 94/1۔
ان کے دلائل یہ ہیں:
ان لوگوں نے متفرد آدمی کو امام پر قیاس کرتے ہوئے استدلال کیا ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک متفرد آدمی کا بلند آواز سے آمین کہنا اسی طرح سنت ہے جس طرح امام کا آمین جہراً کہنا سنت ہے۔
محمد الخطيب: مغني المحتاج إلى معرفة ألفاظ المنهاج: 161/1، النووي، المجموع شرح المهذب: 331/3، ابن المنذر: الإقناع: 94/1۔
اور حنابلہ نے بھی متفرد کو امام اور مقتدی پر قیاس کرتے ہوئے یہی موقف اپنایا ہے۔
أبو اسحاق المؤرخ الحنبلي: المبدع في شرح المقنع: 440/1، منصور البهوتي: الروض المربع بشرح زاد المستقنع: 57/1۔

راجح موقف:

میں اپنے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہتا ہوں:
میرے لیے جو راجح موقف ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ متفرد آدمی جب اکیلا جہری نماز ادا کرے گا تو اس میں قرآت بھی بلند آواز سے کرے گا اور آمین بھی جہراً کہے گا۔ سری نمازوں میں قرآت مخفی کرے گا اور آمین بھی مخفی آواز سے کہے گا۔ والله اعلم بالصواب.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1