لڑکی کو غیر پسندیدہ شخص سے شادی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا

لڑکی کو اس کے غیر پسندیدہ شخص سے شادی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا
————–

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : کیا باپ اپنی بیٹی کو کسی ایسے شخص سے شادی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہو ؟
جواب : باپ ہو یا کوئی اور شخص اپنے زیر کفالت بچی کو اس کے غیر پسندیدہ شخص سے شادی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا، بلکہ اس بارے میں لڑکی سے اجازت لینا ضروری ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار ہے :
لا تنكح الأيم حتى تستأمر، ولا تنكح البكر حتى تستأذن، قالوا : يا رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف إذنها ؟ قال : أن تسكت – وفى لفظ آخر – قال : إذنها صماتها – وفى اللفظ الثالث – والبكر يستأذنها أبوها وإذنها سكوتها [ رواه مسلم فى كتاب النكاح باب 9 والدارمي فى كتاب النكاح باب 13 و احمد جلد 2 ص 234 ]
”جب تک بیوہ عورت سے مشورہ نہ کر لیا جائے اس کا نکاح نہ کیا جائے، اور جب تک کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی جائے اس کا نکاح نہ کیا جائے۔ اس پر لوگوں نے سوال کیا، یا رسول اللہ ! اس کے اذن کی کیا صورت ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس کی خاموشی۔ “ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ : ”اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔ “ تیسری روایت کے الفاظ یوں ہیں : ” کنواری لڑکی سے اس کا باپ اجازت لے اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ “
اگر لڑکی کی عمر نو برس یا اس سے زیادہ ہو تو باپ کے لئے اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کے دوسرے سرپرست بھی اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں کر سکتے۔ سب لوگوں پر ایسا کرنا واجب ہے، اور اگر کسی نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کر دیا تو وہ نکاح صحیح نہیں ہو گا، کیونکہ نکاح کے لئے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے۔
اگر انہوں نے اس کی مرضی کے بغیر، زبردستی مار پیٹ کر یا سنگین نتائج کی دھمکی دے کر اس کا نکاح کر دیا تو بھی ایسا نکاح صحیح نہیں ہو گا، ہاں اگر لڑکی کی عمر نو سال سے کم ہو اور اس کا باپ اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کر دے تو صحیح مذہب کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی اجازت کے بغیر شادی کی، جبکہ اس وقت ان کی عمر نو سال سے کم تھی۔ اور اگر لڑکی کی عمر نو سال یا اس سے زائد ہو تو باپ سمیت کوئی بھی شخص اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کر سکتا۔ شادی کا پیغام دینے والے شخص کو اگر لڑکی کی ناپسندیدگی کا علم ہو جائے تو اسے ایسے قدم سے باز رہنا چاہیئے اگرچہ لڑکی کا باپ بھی اس معاملے میں لچک رکھتا ہو۔ باپ پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور بیٹی کی مرضی کے برعکس کوئی قدم نہ اٹھائے۔ اگر باپ کو یہ دعوی ہو کہ اس نے لڑکی پر زبردستی نہیں کی پھر بھی شرعی محرمات کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی سے اجازت لینے کا حکم دیا ہے۔
ہم لڑکی کو بھی نصیحت کریں گے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ اس کا باپ اگر اس کی شادی کرنا چاہتا ہو اور منگنی کا پیغام دینے والا شخص دینی اور اخلاقی طور پر پسندیدہ اوصاف کا حامل ہو تو اسے چاہیئے کہ اس پر موافقت کا اظہار کر دے۔ اگر باپ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص بھی اس کی شادی کرنا چاہے تو بھی اسے ایسا ہی کرنا چاہیئے کیونکہ نکاح میں بڑی برکات اور مصلحتیں پنہاں ہوتی ہیں، جبکہ مجرد زندگی بسر کرنے میں بے شمار خطرات پوشیدہ ہوتے ہیں۔
ہم تمام نوجوان لڑکیوں کو نصیحت کریں گے کہ وہ مناسب رشتے آنے پر اپنی موافقت کا اظہار کر دیں اور درس و تدریس وغیرہ کو بہانہ نہ بنائیں۔ والله ولي التوفيق

لڑکی اور اس کے باپ (ولی) کی رضامندی کافی ہے
————–

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میں اپنی ایک مشکل کا حل چاہتی ہوں، بات یہ ہے کہ میری عمر اس وقت چوبیس سال ہے، میرے لئے ایک ایسے نوجوان نے منگنی کا پیغام دیا جو یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم مکمل کر چکا ہے اور ایک دیندار خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر میرے والد نے اپنی موافقت کا اظہار کر دیا اور نوجوان کو دیکھنے کے لئے مجھے بیٹھک میں آنے کو کہا : ہم نے ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد ایک دوسرے کو پسند کر لیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ دین حنیف نے شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ جب میری والدہ کو معلوم ہوا کہ یہ نوجوان ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور قسم کھائی کہ کسی بھی صورت میں یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی، میرے باپ نے بڑی کوشش کی مگر ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آ سکا۔ کیا ان حالات میں مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں شریعت سے اپنے مسئلے میں مداخلت کا مطالبہ کروں ؟
جواب : بصورت صحت سوال لڑکی کی والدہ کو اس بارے میں اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں بلکہ اس پر ایسا کرنا حرام ہے۔ سائلہ محترمہ ! اس معاملے میں تمہاری ماں کی اطاعت تم پر واجب نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار مبارک ہے :
إنما الطاعة فى المعروف [متفق عليه ]
”اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔ “
اور نیک رشتے کے پیغام کو رد کرنا نیکی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه، إلأ تفعلوا تكن فنتة فى الأرض وفساد كبير [ سنن ترمذي بسند حسن ]
”جب کوئی ایسا شخص تمہیں نکاح کا پیغام دے کہ جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اسے رشتہ دے دو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد کبیر برپا ہوگا۔“
اگر یہ معاملہ عدالت کے سامنے اٹھانے کی ضرورت پیش آئے تو بھی آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔

نماز باجماعت کے تارک کو رشتہ نہ دیا جائے
————–

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : ہمارے ہاں ایک نوجوان میری بہن کا رشتہ طلب کرنے آیا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ باجماعت نماز ادا نہیں کرتا، ا س پر ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا کہ اسے رشتہ دیا جائے یا انکار کر دیا جائے۔ میرے بھائی کا کہنا تھا کہ ہم اسے رشتہ دے دیں، شائد اللہ تعالیٰ اسے سے ہدایت نصیب فرما دے، لیکن والد صاحب نے ایسا کرنے سے انکار دیا۔ میں اس بارے میں شرعی حکم چاہتی ہوں۔
جواب : جس شخصں کے متعلق معلوم ہو کہ وہ نماز باجماعت نہیں پڑھتا تو ضروری ہے کہ اسے رشتہ نہ دیا جائے۔ اس لئے کہ جماعت کا ترک کر دینا کھلی معصیت ہے۔ یہ منافقوں کی علامت ہے اور کلیتًا ترک نماز کا پیش خیمہ ہے۔ جو کہ کفر اکبر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى [ 4-النساء:142]
”بے شک منافقین اللہ تعالیٰ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی چالبازیاں ان پر الٹ رہا ہے اور یہ لوگ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی سےکھڑے ہوتے ہیں۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
أثقل الصلاة على المنافقين صلاة العشاء وصلاة الفجر، ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا [متفق عليه ]
”عشاء اور صبح کی نمازیں منافقوں پر انتہائی بھاری ہیں اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ کتنی فضیلت کی حامل ہیں تو چاہے انہیں گھٹنوں کے بل آنا پڑے ضرور آئیں۔“
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ولقد رأيتنا وما يتخلف عنها – يعنى الصلاة فى الجماعة – إلا منافق معلوم النفاق [صحيح مسلم ]
”ہم دیکھتے تھے کہ نماز باجماعت سے صرف خالص منافق ہی چھپے رہے تھے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :
العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد كفر [ترمذى رقم 2623، سنن نسائي، سنن ابن ماجة رقم 1079، مسند احمد، 346/5، مستدرک الحاكم 7/1، سنن دارمي، السنن الكبري للبيهقي 366/5، مصنف ابن ابي شيبة 11/ 34 و صحيح ابن حبان رقم 1454 ]
”ہمارے اور کفار و مشرکین کے مابین صرف نماز ہی حد فاصل ہے، جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس سے یقینا کفر کیا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد یوں ہے :
بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلاة [صحیح مسلم]
”مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک نماز کا فاصلہ ہے۔ “
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز باجماعت کا ترک کرنا کلیتاً نماز ترک کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ ہم تمام اللہ تعالیٰ کے حضور سب کی ہدایت اور توفیق کے لئے دعا گو ہیں۔

عیسائی شخص کا مسلمان خاتون سے شادی کرنا
————–

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : مسلمان خاتون سے عیسائی مرد کے شادی کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے ؟ اور اگر ان سے بچے ہوں تو ان کا کیا حکم ہے ؟
جواب : عیسائی شخص کا مسلمان خاتون سے نکاح باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ [2-البقرة:221]
”اور مشرکین سے (اپنی ) عورتوں کا نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لےآئیں۔“
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ [60-الممتحنة:10]
”وہ عورتیں ان (کافروں) کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ (کافر) ان کے لئے حلال ہیں۔ “
اگر غیر مسلم مرد، مسلمان عورت سے نکاح کر لے تو یہ نکاح باطل ہو گا، اور ہونے والی اولاد، اولاد زنا شمار ہو گی، وہ ماں کے ساتھ رہے گی اور اس کی طرف منسوب ہو گی۔
ہاں اگر یہ نکاح شرعی حکم سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہوا تو اس کے لئے خاص حکم ہے اور وہ یہ کہ نکاح باطل ہو گا اور بچے باپ کی طرف منسوب ہوں گے، اس لئے کہ جماع شبہ کی بناء پر ہوا۔
اور اگر دونوں شری حکم سے آگاہ تھے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایسا کیا، تو اس صورت میں بچے اولاد زنا سمجھے جائیں گے، اور وہ باپ کی طرف نہیں بلکہ ماں کی طرف منسوب ہوں گے، اور اس مرد پر ایک مسلمان عورت سے ناجائز طور پر جماع کرنے کے جرم میں شرعی حد نافذ کی جائے گی۔ اور یہ اس وقت ہو گا جب اسلامی حکومت ایسے شخص پر شرعی حد نافذ کرنے پر قادر ہو اور اگر وہ نکاح کے بعد مسلمان ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت نصیب فرما دی تو وہ اس سے نیا نکاح کرے۔ والله الموفق

بوقت نکاح طے شدہ شرائط کا پورا کرنا لائق تر ہے
————–

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : بوقت نکاح بیوی نے اگر خاوند سے یہ شرط رکھی کہ وہ شادی کے بعد اسے پڑھانے سے منع نہیں کرے گا اور اس شرط پر خاوند کی موافقت کے بعد عورت اس سے شادی پر راضی ہو گئی۔ کیا اس صورت میں کہ بیوی ملازمہ ہے، اس پر اپنے خاوند اور بچوں کا نان ونفقہ لازم ہے ؟ اور کیا خاوند بیوی کی رضامندی کے بغیر اس کی تنخواہ میں سے کچھ لینے کا مجاز ہے ؟ اور جب عورت دین دار ہو اور وہ موسیقی اور گانا بجانا سننا نہ چاہتی ہو لیکن خاوند اور اس کے گھر والے گانے سننے پر مصر ہوں اور یہ کہیں کہ گانے نہ سننے والا وسوسوں میں مبتلا کرتا ہے، تو کیا ان حالات میں عورت کو خاوند کے گھروالوں کے ساتھ رہنا چاہیئے ؟
جواب : جب عورت نے نکاح کے لئے یہ شرط رکھی کہ مرد اسے تعلیم و تعلم سے نہیں روکے گا، اور اس نے یہ شرط قبول کرتے ہوئے شادی کر لی تو ایسی شرط صحیح ہے اور بیوی سے ہم بستری کر لینے کے بعد خاوند کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسے اس سے روکے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
إن أحق الشروط أن يؤفى به ما استخللتم به الفروج [متفق عليه ]
” جن شروط کے نتیجے میں تم نے شرمگاہوں کو حلال سمجھا ان شرطوں کا پورا کرنا لائق تر ہے۔“
اگر خاوند شرط کے مطابق بیوی کو کام کرنے سے روکتا ہے تو عورت کو اس امر کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کے پاس رہے یا شرعی عدالت سے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے۔ جہاں تک خاوند اور اس کے گھر والوں کا موسیقی سننے سے تعلق ہے تو ان کے اس عمل سے نکاح فسخ نہیں ہو گا، عورت خیر خواہی کے پیش نظر ان لوگوں کو اس کی تحریم کےحکم سے آگاہ کرے اور خود ایسی منکرات سے کنارہ کش رہے۔
اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الدين النصيحة [صحيح مسلم ]
”دین خیر خواہی کا نام ہے۔ “
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من راي منكم منكرا فليغيره بيده فان لم يستطع فبلسانه، فان لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان [صحيح مسلم ]
”تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ایسا کرے (یعنی دل میں برا سمجھے ) اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔ “
اس موضوع سے متعلق بہت سی آیات اور احادیث نبوی موجود ہیں۔
بیوی بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر ہے، وہ بیوی کی مرضی کے بغیر اس کے مال سے کچھ بھی لینے کا اختیار نہیں رکھتا، جیسا کہ عورت بھی خاوند کی مرضی کے بغیر اس کے گھر سے اپنے والدین یا کسی اور کے گھر نہیں جا سکتی۔ والله ولي التوفيق

ہوٹلوں میں تقریبات منعقد کرنے کا حکم
————–

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی تقریبات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب : ① ہوٹلوں میں منعقدہ تقریبات میں متعدد قباحتیں (کئی خرابیاں) ہیں، ایسی تقریبات عام طور پر فضول خرچی اور غیر ضروری اخراجات کا باعث بنتی ہیں۔
② ہوٹلوں میں تقریبات دعوت ولیمہ کے موقعہ پر تکلفات، بے پناہ اخراجات اور غیر متعلقہ لوگوں کی شرکت پر منتج ہوتی ہیں۔
③ ایسی تقریبات کبھی مرد وزن کے اختلاط کا سبب بنتی ہیں، جو کہ انتہائی معیوب اور منکر انداز میں سامنے آتا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر ممتاز علماء پر مشتمل بورڈ (کمیٹی) نے ایک قرارداد سعودی فرمانروا کی خدمت میں پیش کی، جس میں مفاد عامہ اور خیرخواہی کے پیش نظر اس امر کی سفارش کی گئی کہ شادی بیاہ اور دعوت ہائے ولیمہ کے پروگرام ہوٹلوں میں منعقد کرنے پر عائد کر دی جائے۔ لوگ ایسی تقریبات اپنے گھروں میں رکھیں اور ہوٹلوں میں تکلفات سے کام نہ لیں کہ اس طرح ولیمہ کی دعوتیں کئی طرح کی خرابیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی طرح ایسی دعوتوں کا انعقاد شادی گھروں میں بھی ممنوع قرار دیا جائے جو کہ بھاری رقوم کے بدلے سے کرائے پر حاصل کئے جاتے ہیں، یہ سب کچھ خیرخواہی کے نتیجے کے طور پر تھا۔ پابندی کی سفارش کا مقصد عوام الناس کا مفاد، ملکی اقتصادیات کا تحفظ اور اسراف و تیذیر کا خاتمہ تھا تاکہ متوسط طبقے کے لوگ بھی شادی رچانے پر قادر ہو سکیں اور تکلفات سے محفوظ رہ سکیں۔ جب ایک شخص اپنے چچا زاد یا کسی عزیز کو ہوٹلوں اور دعوت ولیمہ کے پروگراموں میں اس قدر تکلف کرتے دیکھتا ہے تو اب اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا کہ یا تو وہ بھی ان کی دیکھا دیکھی شاہانہ تکلفات سے کام لے اور اس طرح قرضہ جات اور بھاری بھر کم اخراجات کے بوجھ تلے کراہتا رہے، دوسری صورت یہ ہے کہ ان تکلفات کے ڈر سے شادی کے بھاری پتھر کو اٹھائے سے ہی باز رہے۔
تمام مسلمان بھائیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اس طرح کی دعوتیں ہوٹلوں اور مہنگے قسم کے شادی گھروں میں ہرگز نہ کریں بلاشبہ ایسی تقریبات کا اہتمام سستے قسم کے شادی گھروں اپنے ہی گھر یا اگر ممکن ہو تو اپنے کسی قریبی عزیز کے گھر میں بلاولیٰ بہتر ہے۔

راگ رنگ پر مشتمل تقریبات میں خواتین کی شرکت
————–

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : شادی بیاہ اور سالگرہ کی تقریبات میں خواتین کی شرکت کا کیا حکم ہے؟ جبکہ سالگرہ وغیرہ کی تقریبات بدعت ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے، علاوہ ازیں ایسی تقریبات رات بھر جاگنے کے لئے بعض طربیہ پروگراموں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ نیز کیا عورتوں کا دلہن کو دیکھنے اور شادی والوں کی عزت افزائی کے لئے، راگ و رنگ سنے بغیر ایسے پروگراموں میں شرکت کرنا حرام ہے ؟
جواب : شادی بیاہ کی تقریبات مرد و زن کے اختلاط کے بغیر اور فحش قسم کے گانوں وغیرہ کی منکرات سے محفوظ ہوں یا ان کی شرکت سے خرافات پر مشتمل پروگرام ختم ہو سکتے ہوں، تو خوشی کے ایسے پروگراموں میں شرکت سے کوئی چیز مانع نہیں ہے بلکہ اگر وہ ایسی منکرات کو ختم کرنے کی طاقت رکھتی ہوں تو ان کا شریک ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر ایسی تقریبات شرعی منکرات سے پر ہوں اور وہ ان کے انکار پر قادر نہ ہوں تو اس صورت میں ان کا شریک ہونا حرام ہے۔
ارشار باری تعالیٰ ہے :
وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَذَكِّرْ بِهِ أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّـهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ [6-الأنعام:70]
”اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجئیے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے ہلاکت میں پھنس جائے کہ اس کے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار ہو نہ سفارشی۔ “
مزید ارشار ہوتا ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ [31-لقمان:6 ]
”اور کوئی (بدبخت) انسان ایسا بھی ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی چیزیں خرید کرتا ہے تاکہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکائے اور اس راہ کا مذاق اڑائے، ایسے ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ “
غناء اور موسیقی کی مذمت میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔ جہاں تک سالگرہ کا تعلق ہے، تو چونکہ یہ بدعت ہے لہٰذا کسی مسلمان مرد و عورت کے لئے اس میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ایسی تقریبات کے انکار اور شرعی حکم کے اظہار کے لئے ان میں شرکت کرے تو جواز کی صورت موجود ہے۔

حق مہر کا مسئلہ
————–

 

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : کیا آدمی اپنی بیٹی یا بہن کے مہر کے عوض نکاح کر سکتا ہے ؟
جواب : کسی شخص کی بیٹی یا بہن کا مہر اس عورت کا اپنا حق ہے، ہاں اگر کوئی عورت اپنا سارا مہر یا اس کا کچھ حصہ اپنی رضامندی اور اختیار سے اسے ہبہ کر دے اور اس کا یہ عمل شرعاً معتبر بھی ہو تو وہ ایسا کر سکتی ہے، اور اگر وہ اپنا مہر اسے نہ دے تو اس کا اس سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے صرف باپ اپنی بیٹی کے حق مہر سے اتنا سا لے سکتا ہے جو بیٹی کے لئے ضرر رساں نہ ہو اور نہ وہ کسی سے امتیازی سلوک کرے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
إن أطيب ما أكلتم من كسبكم، وإن أولادكم من كسبكم [رواه الترمذي فى الاحكام باب 22 والنسائي فى كتاب البيوع باب 1 و أحمد 162/6 و ابن ماجه فى كتاب التجارات باب 64 ]
”سب سے پاکیزہ مال جو تم کھاتے ہو وہ تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد تمہاری کمائی سے ہے۔ “

بیویوں کی تعداد
————–

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنا غیر مشروع ہے، سوائے اس آدمی کے کہ جس کی کفالت میں یتیم بچیاں ہوں اور وہ ان میں عدم انصاف سے خائف ہو، تو اس صورت میں وہ ان کی ماں یا کسی ایک لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ اپنے اس دعوی کے ثبوت میں وہ مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں : وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ [4-النساء:3 ] ”اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم بچیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، دو دو سے، تین تین سے چار چار سے“۔ ہم جناب سے حقیقت کی وضاحت چاہتے ہیں۔
جواب : یہ قول سراسر باطل ہے۔ مذکورہ بالا آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم میں سے کسی کی گود میں یتیم بچی ہو اور وہ اسے مہر مثل دینے سے ڈرتا ہو، تو وہ کسی اور عورت سے نکاح کرے کہ عورتوں کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس پر کوئی تنگی نہیں کی۔ یہ آیت دو تین یا چار عورتوں سے شادی کے مشروع ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اس طرح پاکدامنی، شرم و حیا اور عزت و آبرو کا تحفظ بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔ تعدد زواج کثرت آبادی، اکثر خواتین کی عفت، ان پر احسان و انفاق کا ایک ذریعہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کا ایک مرد کے نصف، تیسرے یا چوتھے حصے پر حق رکھنا بغیر خاوند کے رہنے سے بہتر ہے۔ ہاں اس میں عدل و استطاعت شرط ہے۔ جو شخص عدم انصاف سے خائف ہو تو وہ ایک بیوی پر ہی اکتفاء کرے، اس کے ساتھ وہ لونڈی بھی رکھ سکتا ہے۔ اس کی تائید اور تاکید اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یوں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا آپ کے پاس نو بیویاں تھیں‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا [33-الأحزاب:21]
”تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ سے۔ “
آپ نے امت کے لیے تصریح فرما دی کہ ان میں سے کوئی شخص بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ شادی نہیں کر سکتا، اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا چار یا ان سے کم عورتوں میں ہے، رہا اس سے زائد کو حبالہ عقد میں لانا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔

اس تحریر کو اب تک 49 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply