لوگوں کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو جانے کا معنی کیا ہے اور اس کی پہچان
یہ اقتباس محمد مُظفر الشیرازی (مدیر جامعہ امام بخاری، سیالکوٹ) کی کتاب نماز میں اُونچی آواز سے آمین کہنا سے ماخوذ ہے جس کے مترجم حافظ عبدالرزاق اظہر ہیں۔

لوگوں اور فرشتوں کے آمین کا موافق ہو جانا اس کے بارے میں علمائے کرام نے متعدد اقوال ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

پہلا قول:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا معنی بیان کرتے ہو:
فمن وافق تأمينه تأمين الملائكة
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے فرشتے کسی بھی علت، ریا کاری، دکھلاوے، شہرت اور غرور و تکبر کے بغیر آمین کہتے ہیں، بلکہ ان کا آمین کہنا خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوتا ہے۔ جب قرآن پڑھنے والا بغیر کسی شہرت، ریا کاری، غرور و تکبر کے آمین کہتا ہے تو اخلاص میں اس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو جاتا ہے تو اس وقت اس کے پچھلے سارے گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے۔
ابن حبان: الصحيح مع الإحسان: 108/5۔

دوسرا قول:

امام نووی رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :
من وافق قوله قول الملائكة
کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
من وافق تأمينه تأمين الملائكة کا معنی یہ ہے کہ آمین کہنے میں وقت کی موافقت ہو جائے، جس وقت فرشتے آمین کہتے ہیں اسی وقت نمازی آمین کہے۔ نمازی کا فرشتوں کے ساتھ آمین کہنے والا معنی ہی صحیح اور درست ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا معنی یہ ہے کہ نمازی کی فرشتوں کے ساتھ آمین کہنے میں موافقت خشوع، خضوع اور اخلاص میں ہو تو اس وقت اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
النووي، شرح صحيح مسلم: 130/4۔

تیسرا قول:

امام ابن دقيق العيد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام کے آمین کہنے کا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہونے کا ظاہری معنی زمانے اور وقت میں موافقت ہے۔ اسی موقف کو ایک دوسری حدیث مضبوط اور قوی کرتی ہے:
إذا قال أحدكم آمين قالت الملائكة فى السماء آمين فوافقت إحداهما الأخرى
جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان پر آمین کہتے ہیں اور ان دونوں میں سے ایک کی دوسرے کے ساتھ موافقت ہو جاتی ہے۔
اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آمین کی موافقت آمین کی صفت میں ہو، یعنی نمازی کا آمین کہنا اخلاص اور للہیت میں فرشتوں کے آمین کی صفت کے موافق ہو، یا اس کے علاوہ دیگر مدحت سرائی والی صفات کے موافق ہو، لیکن پہلا قول اور موقف زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔
ابن دقيق العيد: أحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام: 208/1۔

چوتھا قول:

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حدیث میں یہ فرمانا:
من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو گیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے۔
اس کے بارے میں علماء کرام کے متعدد مختلف اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس حدیث میں اس بات کا احتمال ہے کہ مراد یہ ہو کہ جس نے آمین کہنے میں اخلاص سے کام لیا، درست، صاف شفاف نیت کے ساتھ اور غفلت وبے پروائی کے بغیر آمین کہا، اس کا آمین کہنا آسمان کے ان فرشتوں کے آمین کے موافق ہو گیا جو زمین والوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔
کچھ دوسرے لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اپنے اس قول من وافق تأمينه تأمين الملائكة سے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے لیے دعا کرنے کے لیے ابھارنا ہے، کیونکہ آسمان پر فرشتے بھی زمین والوں کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔
تو جس نے اپنی نماز میں مومنوں کے لیے دعا کی، اس کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا، کیونکہ اس کی دعا اس وقت ان فرشتوں کی دعا کے موافق ہوتی ہے جو زمین میں ایمان والوں کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔
کچھ دوسرے لوگوں نے کہا: وہ فرشتے جو انسان کی حفاظت و نگہداشت کرنے والے، اعمال لکھنے والے اور وہ فرشتے جو نمازوں کے اوقات میں یکے بعد دیگرے مومنوں کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں، جب قاری وَلَا الضَّالِّينَ کہتا ہے تو اس وقت وہ فرشتے آمین کہتے ہیں۔ تو جس نے ان کے اس فعل کی طرح کیا اور آمین کہا، اس کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہنے پر ابھارا ہے، اس کی ترغیب دلاتی ہے۔
ابن عبد البر: التمهيد لما في المؤطأ من المعاني والأسانيد: 15-16/7۔

پانچواں قول:

امام زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
من وافق تأمينه تأمين الملائكة
اس کا معنی یہ ہے کہ فرشتے آمین کہتے ہیں اور جس کا آمین کہنا قول اور زمان کے لحاظ سے فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو گیا، اس کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔
الزرقاني، شرح الزرقاني على المؤطأ: 260/1۔

چھٹا قول:

امام عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
فوافقت إحداهما الأخرى
اس کے معنی و مراد میں اختلاف کیا گیا ہے۔ اس میں صحیح موقف یہ ہے کہ یہاں پر مراد موافقت وقت میں ہے کہ فرشتوں کا آمین کہنا اور ابن آدم کا آمین کہنا اس کا وقت ایک ہو گیا تو اس کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔ حدیث نبوی کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے۔
العراقي: طرح التثريب على التقريب: 266/2۔

ساتواں قول:

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آمین کا موافق ہو جانا، اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ قبولیت میں موافقت ہوتی ہے۔ دوسرا قول ہے کہ زمانے میں موافقت ہو جائے۔ تیسرا قول ہے کہ دعا میں اخلاص کی صفت میں موافقت ہو تو سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
القرطبي: الجامع لأحكام القرآن: 89/1۔

آٹھواں قول:

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
من وافق تأمينه تأمين الملائكة
اس کے معنی مراد کیا ہیں؟ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے ساتھ وقت میں موافق ہو گیا، اس کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔ ایک قول یہ ہے کہ قبولیت میں موافقت ہو۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اخلاص کی صفت میں موافقت ہو۔
ابن كثير: تفسير القرآن العظيم: 33/1۔

نواں قول:

امام ابن المنير رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فرشتوں اور انسانوں کے درمیان آمین کے کہنے میں قول اور زمانے میں موافقت کے پائے جانے کی حکمت یہ ہے کہ مومن جب نماز ادا کرنے کے لیے آئے تو اس وقت اس میں بیداری اور چستی ہونی چاہیے، کیونکہ فرشتوں میں غفلت اور سستی نہیں ہوتی۔ تو جو بیدار مغز ہونے میں فرشتوں کے موافق ہو گیا، اس کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔
ابن حجر: فتح الباري شرح صحيح البخاري: 265/2، الزرقاني، شرح الزرقاني على المؤطأ: 260/1۔

دسواں قول:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لوگوں کے آمین کہنے کا فرشتوں کے آمین کہنے کے ساتھ موافقت کا معنی یہ ہے کہ قول میں اور زمانے میں موافقت ہو جائے، ان لوگوں کے خلاف جو موافقت سے مراد اخلاص اور خشوع لیتے ہیں، جیسا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا۔
ابن حجر: فتح الباری شرح صحیح بخاری: 265/2

گیارہواں قول:

مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
من وافق تأمينه تأمين الملائكة
اس کا معنی مراد قول اور زمانے میں موافقت ہونا ہے۔
المباركفوري: تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي: 212/1۔

اس مسئلے میں راجح موقف:

اس مسئلے میں راجح موقف جو اس پوری بحث سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہی ہے، واللہ اعلم بالصواب، کہ لوگوں کا آمین کہنے میں فرشتوں کے موافق ہونے سے مراد یہ ہے کہ قول میں موافقت ہو، یعنی آمین کہنے میں موافقت ہو، اور زمانے میں موافقت ہو، لوگوں کی آمین بھی اس وقت ہو جس وقت فرشتے آسمان پر آمین کہتے ہیں۔
اسی قول کی طرف تمام علمائے کرام کا رجحان و میلان ہے، ان کے اقوال میں جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے، سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ اور ابن عبد البر رحمہ اللہ کے، کیونکہ ظاہر پر حکم لگانا زیادہ سہل اور اولیٰ ہے باطن پر حکم لگانے سے، اور باطن پر حکم لگانا بہت مشکل ہے۔
اسی وجہ سے ہم نے ان لوگوں کے قول کو راجح قرار دیا ہے جنھوں نے کہا کہ موافقت سے مراد قول اور وقت میں موافقت ہے۔ والله اعلم بالصواب.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1