عورت کے بچوں کی نسبت اور نفقے کے شرعی احکام
سوال کی وضاحت:
ایک عورت کو اس کے شوہر کی طرف سے تین شرعی طلاقیں (طلاقِ بتہ) ہو چکی ہیں۔ طلاق کے بعد وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ چلی جاتی ہے، جو اس کے سابق شوہر کے بستر پر پیدا ہوئے تھے۔ بعد میں جب شوہر نے عدالت میں بچوں کی تحویل کا مطالبہ کیا تو عورت نے تحریری طور پر یہ دعویٰ کر دیا کہ یہ شخص حرامی بچوں کا باپ ہے، یعنی ان بچوں کا حقیقی باپ وہ نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ:
✿ کیا شریعت اس عورت کو اس مرد سے بچوں کا خرچ دلوانے کی اجازت دیتی ہے؟
✿ جبکہ مرد نے بھی عورت کے اس اقرار کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ "اگر یہ کہتی ہے کہ بچے میرے نہیں تو میں بھی دستبردار ہوتا ہوں”۔
✿ اس صورت میں کیا عورت بچوں کا نفقہ (خرچ) لینے کی شرعاً مجاز ہے؟
✿ اس مسئلے کے سلسلے میں دو احادیث بظاہر متضاد محسوس ہوتی ہیں۔ ان کے درمیان تطبیق (مطابقت) کیسے دی جائے؟
متعلقہ احادیث:
➊ حدیث نمبر 1:
«اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ»
(مشکوة، کتاب النکاح، باب اللعان)
"اولاد بستر والے کے لیے ہے، اور زناکار کے لیے پتھر (یعنی کچھ نہیں)۔”
➋ حدیث نمبر 2 (لعان والی حدیث):
«وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّهِ»
(متفق علیہ، مشکوة، باب اللعان، الفصل الاول)
"اور بچہ ماں کے ساتھ ملایا گیا۔”
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلی حدیث «اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ» ایک عام اصول بیان کرتی ہے کہ بچہ اس کا سمجھا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہے، یعنی نکاح میں موجود شوہر کے ساتھ اس کی نسبت ہو گی۔ اس اصول کے تحت ولد ملاعنہ (لعان کا بچہ) بھی آ جاتا ہے۔
لیکن دوسری حدیث «وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّهِ» خاص ہے، اور اصول فقہ کا قاعدہ ہے:
«وَالْخَاصُ لاَ يُعَارِضُ الْعَامَ بَلْ يُبْنَی الْعَامُ عَلَی الْخَاص»
"خاص، عام کے معارض نہیں ہوتا بلکہ عام کی بنیاد خاص پر رکھی جاتی ہے۔”
یعنی عمومی قاعدے پر جب کوئی خاص صورت سامنے آئے تو اس پر اسی خاص حکم کا اطلاق کیا جائے گا۔
موجودہ معاملے کی شرعی حیثیت:
آپ نے جو واقعہ ذکر کیا ہے، وہ لعان کی صورت نہیں ہے۔ لعان وہ صورت ہے جب شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتا ہے اور قسمیں کھانے کے بعد بچہ اپنے آپ سے علیحدہ کر دیتا ہے۔ اس مخصوص عمل کو "لعان” کہتے ہیں، جو شرعی اصولوں کے تحت عدالت میں انجام پاتا ہے۔
✿ موجودہ کیس میں عورت نے تحریری بیان دیا کہ بچے اس شوہر کے نہیں۔
✿ مرد نے اس بنیاد پر بچوں سے دستبرداری اختیار کر لی، لیکن یہ عمل لعان نہیں کہلاتا کیونکہ لعان کے مخصوص شرعی طریقہ کار اور شرائط موجود ہیں، جو اس کیس میں موجود نہیں۔
لہٰذا:
✿ چونکہ بچے اس شوہر کے نکاحی بستر پر پیدا ہوئے ہیں اور لعان کا عمل شرعاً نہیں ہوا،
✿ اس لیے حدیث «اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ» کے مطابق وہ بچے اسی کے تصور کیے جائیں گے،
✿ اور اس پر ان بچوں کا نفقہ واجب ہو گا۔
عورت کا یہ کہنا کہ بچے اس کے نہیں، اور مرد کا یہ مان لینا، شرعی لعان کا متبادل نہیں بن سکتا۔ شریعت میں اس کا اعتبار صرف شرعی دلائل اور طریقے سے ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب