قنوت نازلہ کا حکم: مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا جائز ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 231

سوال

پاکستان اور دیگر ممالک میں مسلمانوں پر ظلم و ستم، لڑائیاں اور جھگڑے جاری ہیں۔ ان مظالم کے خلاف اور مجاہدین کی مدد کے لیے کفار کے خلاف مساجد میں قنوت نازلہ پڑھی جا رہی ہے۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک مہینہ قنوت نازلہ پڑھی تھی، وہ بھی ایک خاص موقع پر۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے جنگیں لڑی، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی جنگیں لڑیں، مگر کہیں بھی قنوت نازلہ پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ کیا یہ رائے درست ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بئر معونہ کے شہید صحابہ کے قاتلوں کے خلاف ایک مہینے تک قنوت نازلہ پڑھی، لیکن یہ واحد موقع نہیں تھا۔ قنوت نازلہ اور قنوت غیر نازلہ دونوں آپ ﷺ سے ثابت ہیں۔

احادیث کی روشنی میں ثبوت

◈ قنوت نازلہ کا ذکر صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں تفصیل سے موجود ہے۔
◈ ان کتب میں درج ابواب درج ذیل ہیں:

صحیح بخاری: کتاب التفسیر، باب: لیس لک من الامر شیئٌ
صحیح مسلم: کتاب المساجد، باب: استحباب القنوت فی جمیع الصلوٰت
ابوداؤد: ابواب الوتر، باب: القنوت فی الصلوٰت

عمل کی ہدایت

◈ قنوت نازلہ کا عمل صرف رسول اللہ ﷺ کے دور تک محدود نہیں بلکہ ایک مستقل عمل ہے جو حالات کے مطابق اپنایا جا سکتا ہے۔
◈ البتہ، کبھی کبھار ناغہ کر لینا چاہیے یعنی وقفہ دینا جائز ہے، مسلسل عمل کو ضروری نہیں سمجھنا چاہیے۔

نتیجہ

لہٰذا، مسلمانوں پر مظالم اور جنگی حالات میں قنوت نازلہ پڑھنا سنت سے ثابت ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں، بشرطیکہ اسے مستقل اور لازمی نہ سمجھا جائے۔ یہ عمل حالات کی مناسبت سے کیا جا سکتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1