سوال
کیا کسی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قنوت پڑھنے کے لیے بھی تکبیر کہی جائے؟ (سوال از: ندیم انبالوی)
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قنوت سے پہلے تکبیر کہنے کی روایت:
عبدالرزاق (جلد 3، صفحہ 109، حدیث 4959)،
ابن ابی شیبہ (2/315)،
اور امام طحاوی (معالی الآثار 1/250)
نے صحیح سند کے ساتھ مخارق بن خلیفہ سے روایت نقل کی ہے جو طارق بن شہاب سے روایت کرتے ہیں:
"صليت خلف عمر صلاة الصبح، فلما فرغ من القراءة في الركعة الثانية كبر ثم قنت ثم كبر فركع”
ترجمہ:
میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں فجر کی نماز پڑھی۔ جب آپ دوسری رکعت میں قراءت سے فارغ ہوئے تو "اللہ اکبر” کہا، پھر دعائے قنوت پڑھی، پھر "اللہ اکبر” کہا اور رکوع کیا۔
سند کی تحقیق:
یہ سند صحیح ہے۔
مخارق بن خلیفہ الاحمسی بالاتفاق ثقہ راوی ہیں۔
سنت خلفائے راشدین:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوتِ نازلہ میں تکبیر کہنا سنتِ خلفائے راشدین ہے۔
مزید براں، دوسرے صحابہ جیسے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بھی اس عمل کی تائید مروی ہے۔
رفع یدین کا ثبوت:
جب قنوت سے پہلے تکبیر کہنا ثابت ہو گیا، تو اس کے ساتھ رفع یدین کا عمل بھی ثابت ہوا۔
قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانے کا ثبوت:
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قنوت نازلہ میں (دعاء کی طرح) ہاتھ اٹھانا:
رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے:
(مسند احمد، جلد 3، صفحہ 137، وسندہ صحیح)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے۔
نتیجہ:
لہٰذا راجح قول یہی ہے کہ:
تکبیر کہہ کر رفع یدین کیا جائے،
پھر دعاء کی طرح ہاتھ اٹھا کر قنوت پڑھی جائے۔
والله أعلم بالصواب