سوال
کیا قنوتِ وتر میں رکوع سے پہلے ہاتھ اٹھا کر قنوت پڑھی جائے؟ اس بارے میں کیا شرعی دلیل ہے؟
(ایک سائل)
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
قنوتِ وتر: رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے کی دلیل
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ”
یعنی رسول اللہ ﷺ وتر کی نماز میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
(سنن نسائی، جلد 3، صفحہ 235، حدیث: 1700، سنن ابن ماجہ: 1182)
یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اس میں سفیان الثوری کی متابعت فطر بن خلیفہ نے کی ہے۔
دیکھئے: سنن دارقطنی (جلد 2، صفحہ 31، حدیث: 16449)
اس روایت کو الضیاء المقدسی نے دارالمختارہ میں نقل کیا ہے، لہٰذا راجح بات یہی ہے کہ:
❀ قنوتِ وتر رکوع سے پہلے پڑھی جائے۔
جیسا کہ راقم الحروف نے اپنی کتاب
"ہدیۃ المسلمین فی جمع الأربعین من صلاۃ خاتم النبیین ﷺ”
(نماز کی صحیح اور مستند چالیس حدیثیں، صفحہ 58، حدیث 28)
میں اس کی وضاحت کی ہے۔
رکوع کے بعد قنوت پڑھنے کی روایت اور اس کی حیثیت
السنن الکبری للبیہقی (جلد 3، صفحات 38-39) اور
مستدرک الحاکم (جلد 3، صفحہ 172) میں ایک روایت ہے:
"إذا رفعت رأسي ولم یبق إلا السجود”
یعنی: ’’جب میں نے سر اٹھایا اور سجدے کے علاوہ کچھ باقی نہ رہا۔‘‘
مگر یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں راوی
الفضل بن محمد مسیب الشعرانی ہے:
حاکم نے اسے ثقہ کہا، لیکن باقی محدثین نے ضعیف قرار دیا:
الحسین بن محمد القتبانی نے اسے کذاب کہا۔
ابن حزم کہتے ہیں:
"صدوق إلا أنه کان غالیاً في التشیع”
(لسان المیزان، جلد 4، صفحہ 448، ترجمہ 1368)
ابو حاتم نے فرمایا:
"تکلموا فیہ”
(الجرح والتعدیل، جلد 7، صفحہ 92، ترجمہ 11937)
❀ یعنی اس پر جرح راجح ہے۔
قنوتِ وتر کی مزید روایت اور اس کا تجزیہ
ابن مندہ نے یہی روایت الفضل بن محمد بن مسیب سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے:
"إن أقول إذا فرغت من قراءتي في الوتر”
(التوحید لابن مندہ، جلد 2، صفحہ 191)
❀ اور اس کی سند الفضل تک صحیح ہے۔
اس روایت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔
مذکورہ روایت میں موجود دوسرا راوی
ابوبکر بن عبدالرحمن بن عبدالملک بن شیبہ بھی متکلم فیہ ہے:
دیکھئے: تہذیب الکمال، جلد 11، صفحہ 284
صحیح بخاری میں اس راوی کی صرف دو روایتیں ہیں اور وہ بھی متابعات میں ہیں۔
❀ امام بخاریؒ نے ان سے حجت نہیں پکڑی۔
(ہدیۃ الساری، مقدمہ فتح الباری، صفحہ 418)
مختصر نتیجہ
رکوع کے بعد قنوت والی روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
جبکہ قنوت نازلہ میں صرف بعد از رکوع قنوت پڑھنا ثابت ہے۔
قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کا حکم
قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کی بابت کسی صحیح حدیث میں کوئی وضاحت موجود نہیں۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ قنوت وتر میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔
تاہم، اگر کوئی شخص عام دلائل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو:
❀ یہ بھی جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب