سوال کی وضاحت
ایک شخص نے دوسرے سے بطور قرض ایک ریال لیا، جب کہ اس وقت ایک ریال کی قیمت دس پاکستانی روپے تھی۔ جب وہ قرض واپس کرنے لگا تو ریال کی قیمت پندرہ پاکستانی روپے ہو چکی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ دس روپے واپس کرے گا یا پندرہ روپے، یعنی کیا رقم قیمت کے فرق اور وقت کے گزرنے کے مطابق واپس کی جائے گی؟ سائل نے اس معاملے میں جلد جواب طلب کیا ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علماء کے فتوے کے مطابق:
«يَسْتَدْعِی اتِّقَاءُ الشُّبُهَاتِ ، وَالْاِسْتِبْرَاءُ لِلدِّيْنِ وَالْحُرُمَاتِ أَنْ يُؤَدِّیَ مَا أَخَذَ أَیْ رِيَالاً، وَيَأْمَنَ خَبَالاً وَّوَبَالاً»
’’شبہات سے بچنے اور دین اور حرمات کو بچانے کا تقاضا ہے کہ وہ ریال ہی واپس کرے۔ اور شرمندگی اور وبال سے بچ جائے۔‘‘
یہی بات بہتر ہے کہ جو چیز اصل میں قرض لی گئی تھی، اسی چیز کی واپسی کی جائے۔ اس معاملے میں پیسوں کی مالیت کا فرق شرعاً کسی اضافی ادائیگی کا سبب نہیں بنتا۔ قرض کی بنیاد چیز (یعنی ریال) ہے، نہ کہ اس وقت کی مارکیٹ ویلیو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب