دورانِ تلاوت سلام کرنا – شرعی رہنمائی
سوال
اگر کوئی شخص قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہا ہو تو کیا اُسے سلام کہنا جائز ہے؟
(سوال از: شیر محمد بیاڑ کوہستان)
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیثِ مبارکہ اور اس کی سند
امام اہلِ سنت احمد بن حنبل الشیبانیؒ (164ھ تا 241ھ) نے اس بارے میں ایک حدیث بیان کی ہے:
"ثنا عبداللہ بن یزید :انبانا قباث بن رزین اللخمی قال: سمعت علی بن رباح اللخمی یقول :سمعت عقبہ بن عامر الجهني يقول : كنا جلوسا في المسجد نقرا القران ‘ فدخل علينا رسول الله صلي الله عليه وسلم فسلم علينا فرددنا عليه السلام ‘ ثم قال: (( تعلموا كتاب الله واقتنوه (قال قباث :وحسبته قاله: وتغنوا به) فوالذي نفس محمد بيده ! لهو اشد تفلتا من المخاض من العقل ّ))”
ترجمہ:
عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھ کر قرآن پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے ہمیں سلام کہا تو ہم نے اس کا جواب دیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی کتاب سیکھو اور اسے یاد رکھو۔ (قباث راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا: اور اسے خوش الحانی سے پڑھو۔) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! بے شک قرآن (دل و دماغ سے) رسیوں میں بندھی اونٹنی سے بھی زیادہ تیزی سے نکل جاتا ہے۔
(مسند احمد 4/150، حدیث 1749، وسندہ حسن)
روایت کی دیگر تخریج
یہی روایت امام ابو عبدالرحمن النسائیؒ (215ھ تا 303ھ) نے بھی روایت کی ہے:
- ◈ السنن الکبریٰ للنسائی، جلد 5، صفحہ 18، 19، حدیث 8035
- ◈ کتاب: فضائل القرآن، باب 28: الامر بتعلم القرآن والعمل بہ
رواۃ کا مختصر تعارف
- ➊ عبداللہ بن یزید المکی المقرئ
– کتبِ ستہ کے بنیادی راوی اور متفقہ طور پر ثقہ تھے۔
– حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:"ثقه فاضل ّاقراالقرآن نيفا وسبعين سنة ثلاث عشرة وقد قارب المائة وهو من كبار شيوخ البخاري”
(تقریب التہذیب مع التعقیب، ص 287، ت 3715)
- ➋ قباث بن زرین اللخمی
– صدوق، قاری قرآن۔
– ابن حبان نے ثقہ کہا، ابوحاتم الرازی اور احمد بن حنبل نے "لا بأس به” قرار دیا۔
(تہذیب الکمال، جلد 15، ص 207؛ تقریب التہذیب ص 422، ت 5508) - ➌ علی بن رباح اللخمی
– صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے ثقہ راوی۔
– امام بخاری نے "الادب المفرد” اور "خلق افعال العباد” میں ان سے روایت لی۔
(التقریب، ص 271) - ➍ عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ
– مشہور صحابی اور فقیہ فاضل تھے۔
(التقریب: 4641)
سند کی حیثیت
- ◈ قباث کی وجہ سے یہ سند "حسن لذاتہ” ہے۔
- ◈ شیخ البانیؒ نے فرمایا:
"هذا اسناده صحيح”
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، جلد 7، صفحہ 847، حدیث 3285)
- ◈ یہ جلد سلسلہ صحیحہ کی آخری جلد ہے اور حدیث نمبر 4035 پر مکمل ہوئی۔
"هذا آخر ماحققه الشيخ من هذه السلسلة المباركة ان شاء الله وكان ذلك او آخر شهر جمادي الاولي عام ١٤٢-ه”
(الصحیحة، ج ٧، ص ١٧٤١)
حدیث سے ثابت ہونے والے مسائل
- ➊ قرآن پڑھنے والے کو سلام کہنا جائز ہے۔
- ➋ قرآن کی تلاوت کرنے والا سلام کا جواب دے سکتا ہے۔
- ➌ قرآن کا علم حاصل کرنا، یاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے۔
– حدیث کے راویوں نے قراءتِ قرآن کا علم حاصل کیا اور اس کی تعلیم دی۔ - ➍ قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنا چاہیے۔
– "وتغنوا به” کا ذکر بعض اسانید میں شک کے ساتھ ہے مگر شواہد سے صحیح ہے۔ - ➎ یہ روایت دیگر کتب میں اختصار کے ساتھ بھی آئی ہے جیسے:
- ◈ مصنف ابن ابی شیبہ (ج 10، ص 477، حدیث 29982)
- ◈ صحیح ابن حبان (موارد الظمان، حدیث نمبر 1788)
– اگر ایک روایت مختصر ہو اور دوسری مفصل، تو سند صحیح یا حسن ہو تو اس سے روایت پر کوئی ضعف نہیں آتا۔
- ➏ مسند احمد میں "حدثنی أبی” کا مطلب ہے:
– راوی: عبداللہ بن احمد بن حنبل
– محدث: امام احمد بن حنبل
– "حدثنی أبی” سے غیر زوائد والی احادیث کی ابتدا ہوتی ہے۔ - ➐ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کھانے والے کو سلام نہیں کہنا چاہیے – یہ غلط ہے۔
– جب نمازی اور قاری کو سلام کہنا جائز ہے تو کھانے والے کو بھی کہنا مسنون ہے۔ - ➑ مسجد میں داخل ہوتے وقت موجود افراد کو سلام کہنا مسنون ہے۔
- ➒ نماز میں مشغول شخص کو سلام کہا جا سکتا ہے – وہ اشارے سے جواب دے گا۔
– صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلوۃ، حدیث 540/36
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نماز میں رسول اللہ ﷺ کو سلام کہا، آپ ﷺ نے اشارے سے جواب دیا۔
– صحابہ کرام کا عمل بھی یہی تھا۔
– نافع (تابعی) روایت کرتے ہیں:
> ابن عمر رضی اللہ عنہ نے نماز میں ایک شخص کو سلام کہا، اُس نے زبان سے جواب دیا تو فرمایا:"اذا سلم علي احدكم وهو يصلي فلا يتكلم ولكن يشير بيده”
(مصنف ابن ابی شیبہ، ج 2، ص 74؛ السنن الکبری للبیہقی، ج 2، ص 259 – سند صحیح)
مزید آثار:
"نیل المقصود فی التعلیق علی سنن ابی داود” (مخلوط ج 1، ص 292، حدیث 27) - ➓ قرآن حفظ کرنے والے طلبہ کو خصوصی محنت کرنی چاہیے۔
– سبق، سبقی، منزل کا خاص خیال رکھیں۔
– اگر ممکن ہو تو چھٹی والے دن گزشتہ ہفتے کی منزل زبانی پڑھیں یا سنائیں۔
– قرآن، کثرتِ مراجعت کے بغیر جلدی بھول جاتا ہے۔
(شہادت: نومبر 2002)
نتیجہ
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب