سوال
کیا یہ کہنا جائز ہے کہ "وہ اپنی آخری جگہ دفن ہوگیا” یا "وہ اپنی آخری آرام گاہ میں دفن ہوگیا ہے”؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ جملہ کہنا کہ "وہ اپنی آخری آرام گاہ میں دفن ہوگیا ہے” شرعاً حرام اور ناجائز ہے، کیونکہ:
◈ "آخری آرام گاہ” کے الفاظ کے استعمال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قبر کو ہی انسان کا آخری ٹھکانا یا مقام قرار دیا جا رہا ہے۔
◈ ایسا اظہار بعث بعد الموت (موت کے بعد اٹھایا جانا) کے انکار کے مترادف ہے، جبکہ یہ بات ہر عام مسلمان کو بھی معلوم ہے کہ قبر نہ تو آرام کی جگہ ہے اور نہ ہی انسان کا آخری مقام۔
قبر کو آخری ٹھکانہ سمجھنا کفار کا نظریہ
◈ ایمان نہ رکھنے والے افراد قبر کو ہی انسان کا آخری ٹھکانہ مانتے ہیں۔
◈ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ:
❀ قبر عارضی مقام ہے۔
❀ اصل اور آخری منزل قیامت کے دن جنت یا جہنم ہے۔
ایک بدو کا واقعہ اور قرآنی تفسیر
ایک دیہاتی (بدو) نے کسی کو سورہ التکاثر کی درج ذیل آیات تلاوت کرتے سنا:
﴿أَلهىكُمُ التَّكاثُرُ ﴿١﴾ حَتّى زُرتُمُ المَقابِرَ ﴿٢﴾… سورة التكاثر﴾
’’(لوگو!) تم کو زیادہ (مال) کی طلب نے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘
اس بدو نے ان آیات کو سن کر فوراً کہا:
"اللہ کی قسم! جو دیکھنے والا ہو وہ مقیم نہیں ہوتا، کیونکہ جو زیارت کرنے والا ہوتا ہے وہ تو چلا جاتا ہے۔”
یعنی:
◈ قبروں کو "زیارت گاہ” کہا گیا ہے، مستقل قیام کی جگہ نہیں۔
◈ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو ایک دن قبروں سے اٹھایا جائے گا۔
◈ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ قبر آخری ٹھکانہ ہے۔
نتیجہ
◈ ایسے الفاظ اور لغوی تعبیرات جن سے قبر کو آخری منزل ظاہر کیا جائے، ان سے اجتناب لازم ہے۔
◈ آخری آرام گاہ تو صرف اور صرف جنت یا جہنم ہوگی، جو قیامت کے دن انسان کو نصیب ہوگی۔
ھٰذا ما عندی، والله أعلم بالصواب