فون کارڈ زائد قیمت پر خریدنا: کیا یہ سود ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 358

سوال

ٹیلی فون کرنے کے لیے یہاں سکے اور کارڈ استعمال ہوتے ہیں۔ حکومتی اداروں سے یہ سکے اور کارڈ پورے پیسے دے کر حاصل کیے جا سکتے ہیں، یعنی جتنی قیمت ہے اتنے ہی پیسے دے کر مل جاتے ہیں۔ لیکن عمومی دوکاندار دس ریال کے نو سکے اور سو ریال والا کارڈ ایک سو دس ریال میں دیتے ہیں۔
نو سکوں کا معاملہ تو واضح ہے کہ وہ سود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب فون کارڈ (جس کی قیمت اور استعمال دونوں سو ریال کے برابر ہیں) ایک سو دس ریال میں خریدا جائے تو کیا یہ بھی سود میں شمار ہوگا، حالانکہ وہ کارڈ عین ریال (نہ سکّے ہیں اور نہ ہی نوٹ) نہیں ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فون کارڈ جس کی قیمت سو ریال ہے اور جس سے سو ریال کے برابر فون کیا جا سکتا ہے، اگر اسے ایک سو دس ریال میں خریدا جائے تو یہ معاملہ بھی نو سکوں کو دس ریال میں خریدنے کے مشابہ ہے۔ اس کا حکم بھی وہی ہے، یعنی یہ سود کی ہی ایک صورت ہے۔

دلیل

◈ جب حکومتی ادارے یہی سو ریال والا فون کارڈ سو ریال میں ہی دے رہے ہیں تو اس کی قیمت بڑھا کر دینا ناجائز ہے۔
◈ یہ واضح کرتا ہے کہ اضافی رقم دینا سود میں شمار ہوتا ہے، چاہے وہ سکوں کی شکل میں ہو یا کارڈ کی صورت میں۔

احتیاطی تدبیر

◈ ایسے سودی لین دین سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ فون کارڈ صرف حکومتی اداروں سے ہی خریدے جائیں۔
نجی اداروں یا دکانداروں سے فون کارڈ خریدنے سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ وہ زائد قیمت لے کر سودی معاملے میں پڑ رہے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1