سوال:
کیا فضائل کی احادیث میں جھوٹ بولنا حرام ہے؟
جواب:
احادیث کا تعلق احکام و مسائل سے ہو یا فضائل ومستحبات سے، ہر ایک میں جھوٹ بولنا حرام اور ناجائز ہے، کیونکہ احکام کی طرح فضائل بھی دین ہیں۔ دین کے کسی مسئلہ میں جانتے بوجھتے احادیث گھڑنا یا من گھڑت روایات بیان کرنا سنگین جرم ہے، اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔
اہل سنت والجماعت کے مطابق جانتے بوجھتے خلاف واقعہ بات کی خبر دینے پر بھی جھوٹ کا اطلاق ہوتا ہے، البتہ نادانی و غفلت کی صورت میں گنہگار نہیں ہوگا، جبکہ قصد و عمد کی صورت میں گنہگار ہوگا۔
❀ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كذب على متعمدا، فليتبوأ مقعده من النار»
(صحيح البخاري: 1291، صحيح مسلم: 4)
”جس نے جان بوجھ پر مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ بنالے۔“
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
«لا فرق فى تحريم الكذب عليه صلى الله عليه وسلم بين ما كان فى الأحكام وما لا حكم فيه كالترغيب والتره والمواعظ وغير ذلك فكله حرام من أكبر الكبائر وأقبح القبائح بإجماع المسلمين الذين يعتد بهم فى الإجماع»
(شرح مسلم: 56/1، 70)
”احادیث کا تعلق احکام سے ہو یا ترغیب، ترہیب اور وعظ و نصیحت وغیرہ سے، ہر صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی حرمت برابر ہے، یہ حرام ہے، کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ اور قبیح امور میں سے سب سے قبیح کام ہے۔ اس پر ان مسلمانوں کا اجماع ہے، جو اجماع کے منعقد ہونے میں معتبر ہیں۔“