وتر ایک مستقل بالذات نماز ہے جسے نماز عشاء کے ساتھ کچھ اس انداز سے جوڑ دیا گیا ہے کہ گویا وہ نماز عشاء کا ہی حصہ ہو حالانکہ ایسا نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو مستقل نماز قرار دیا اور اس نماز کی بہت زیادہ فضیلت واہمیت بیان فرمائی ہے اور اس نماز کو عشاء کے ساتھ جوڑ دینے کا سبب دراصل یہ ہے کہ اس نماز کا وقت نماز عشاء کے بعد سے شروع ہو کر طلوع فجر تک رہتا ہے۔ علی کل حال اس نماز کی فضیلت اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابوداؤد، ترمذی اور سنن دارمی وغیرہ میں ارشاد نبوی ہے۔
إن الله قد أمدكم بصلاة وهى الوتر فصلوها فيما بين العشاء إلى طلوع الفجر
الندواء 156/2 وصححه
اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کے ذریعے تمہاری مدد فرمائی ہے اور وہ نماز وتر ہے۔ اسے عشاء اور طلوع فجر کے مابین پڑھا کرو۔
اسی طرح بعض دیگر روایات سے بھی وتروں کی فضیلت کا پتا چلتا ہے جن میں سے اکثریت کی اسناد متکلم فیہ ہیں مثلاً ابوداؤد، ترمذی اور نسائی میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
الوتر ليس بحتم كصلوتكم المكتوبة ولكن سن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال إن الله وتر يحب الوتر فأوتروا أهل القرآن
ابوداؤد، نسائی، صحیح ابن حبان اور دارقطنی وغیرہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک موقوف روایت میں آیا ہے۔
ابوداؤد، ترمذی، نسائی، شرح السنہ وتحقیقہ 79-102/4، الفتح الربانی مختصراً 273-278/4، قال الشوكاني حسنه الترمذي وصححه الحاكم والنیل 49/3/2
نماز وتر تمہاری فرض نمازوں کی طرح حتمی تو نہیں لیکن اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق) ہے اور وہ نماز وتر کو محبوب رکھتا ہے۔ اے اہل قرآن (مسلمانو) وتر پڑھا کرو۔
الوتر حق
وتر حق ہے۔
ابوداؤد کے الفاظ ہیں۔
الوتر حق على كل مسلم
وتر ہر مسلمان پر حق (ثابت) ہے۔
ابن المنذر کی روایت میں ہے۔
الوتر حق وليس بواجب
النیل 29/3/2
وتر حق ہے لیکن واجب نہیں۔
یہ روایت مرفوعاً مذکور ہے مگر امام شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ کبار محدثین میں سے ابوحاتم، ذہلی، دارقطنی اور بیہقی نے اس کے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اسی کی تائید کی ہے۔
حوالہ سابقہ ص 30
الوتر حق فمن لم يوتر فليس منا
بحوالہ بالا، قال الحاكم: هذا حدیث صحیح وضعفه الالبانی الارواء 146/2
وتر حق ہے اور جو شخص وتر نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں۔
ثلاث على فرائض ولكم تطوع النحر والوتر وركعتا الفجر
حوالہ بالا ایضاً
تین چیزیں میرے لیے فرض اور تمہاری نسبت تطوع (یعنی سنت) ہیں: قربانی، نماز وتر اور فجر کی دو رکعتیں۔
ان مختلف روایات سے نماز وتر کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے اور اہل علم نے فجر کی سنتوں اور نماز وتر میں سے کسی ایک کی افضیلت میں مختلف آراء ظاہر کی ہیں۔ بعض نے فجر کی سنتوں کو افضل کہا ہے اور بعض نے وتر کو۔ جبکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ دیگر نفلی نمازوں حتیٰ کہ نماز پنجگانہ کے ساتھ والی تمام مؤکدہ سنتوں سے یہ دونوں زیادہ تاکید والی اور افضل ہیں۔ اس طرح نماز فجر کی سنتوں اور نماز وتر کی فضیلت واہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر حضر کسی موقع پر بھی انہیں ترک نہیں کیا اور ان دونوں کی قضاء بھی ثابت ہے اور ان دونوں کے فضائل میں متعدد احادیث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے بارے میں اہل علم اس پہلو میں بھی دو رائے رکھتے ہیں کہ آیا یہ دونوں واجب ہیں یا سنت مؤکدہ؟ بعض نے فجر کی سنتوں کو اور نماز وتر کو واجب قرار دیا ہے جبکہ جمہور آئمہ، علماء، فقہاء اور اہل علم ان دونوں کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ دیگر مؤکدہ سنتوں سے بھی زیادہ مؤکدہ، افضل اور اہم ہیں جیسا کہ ان کے فضائل میں وارد ہونے والے ارشادات نبوی سے پتا چلتا ہے۔