إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
باب تاثير القرآن
قرآن مجید کی تاثیر کا بیان
قال الله تعالى: ﴿لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ﴾
(الحشر: 21)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔“
وقال الله تعالى: ﴿وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾
(المائدة: 83)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل ہوا تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں اور وہ پکار اٹھتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ “
حدیث: 1
«عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال أبو بكر رضي الله عنه يا رسول الله قد شبت قال شيبتني هود والواقعة والمرسلات وعم يتساءلون وإذا الشمس كورت»
سنن ترمذی، ابواب تفسير القرآن باب سورة الواقعة، رقم الحدیث: 3297 سلسلة الصحيحة، رقم: 900
”حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے سورہ ہود، سورہ واقعہ، سورہ مرسلات، سورہ نباء اور سورہ تکویر نے بوڑھا کر دیا۔ “
حدیث: 2
«وعنه أن النبى صلى الله عليه وسلم سجد بالنجم وسجد معه المسلمون والمشركون والجن والإنس»
صحيح بخاري، كتاب التفسير سورة النجم، باب فاسجدوا لله واعبدوا، رقم الحدیث: 4882
”حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کی تلاوت کے بعد سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام مسلمانوں، مشرکوں، جنوں اور انسانوں نے سجدہ کیا۔ “
حدیث: 3
«وعنه أن رجلا أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني أرى الليلة فى المنام ظلة تنطف السمن والعسل فأرى الناس يتكففون منها بأيديهم فالمستكثر والمستقل قال أبو بكر رضي الله عنه يا رسول الله بأبي أنت والله لتدعني فلأعبرنها قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اعبرها قال أبو بكر رضي الله عنه أما الظلة فظلة الإسلام وأما الذى ينطف من السمن والعسل فالقرآن حلاوته ولينه وأما ما يتكفف الناس من ذلك فالمستكثر من القرآن والمستقل»
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے رات خواب میں دیکھا کہ ایک بادل سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں کے لپ میں لے رہے ہیں، کوئی کم لیتا ہے اور کوئی زیادہ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باپ آپ پر قربان، واللہ! مجھے اس خواب کی تعبیر بیان کرنے کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا! بتاؤ۔“ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: بادل تو اسلام ہے۔ اور بادل سے ٹپکنے والے گھی اور شہد سے مراد قرآن مجید کی حلاوت اور شیرینی ہے۔ اور کم یا زیادہ حاصل کرنے سے مراد قرآن مجید کم یا زیادہ کرنا ہے۔
باب فضل القرآن المجيد
قرآن مجید کے فضائل کا بیان
قال الله تعالى: ﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ . وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ. لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ﴾
(القدر: 1 تا 3)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے۔ “
وقال الله تعالى: ﴿وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ﴾
(البقرة: 231)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور یاد کرو اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم کو عطا کی۔ اور اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اس نے کتاب (یعنی قرآن) اور حکمت (یعنی حدیث) سے جو کچھ نازل کیا ہے اسے یاد رکھو۔ “
وقال الله تعالى: ﴿الم. ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ۔﴾
(البقرة: 1 ، 2)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”الم (حروف مقطعات، اللہ تعالی جانتا ہے )، اس کتاب کے اللہ کی کتاب ہونے مین کوئی شک نہیں ، پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔
حدیث: 4
«وعن وائلة بن الأسقع رضي الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم أعطيت مكان التوراة السبع الطوال ومكان الزبور المئين ومكان الإنجيل المثاني وفضلت بالمفصل»
سلسلة احادیث الصحيحة للألباني، رقم الحدیث: 1480
”حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تورات کی جگہ مجھے سات سبع طوال سورتیں دی گئی ہے ، اور انجیل کی جگہ سورہ فاتحہ دی گئی ہے اور مفصل سورتیں (زائد دے کر) مجھے فضیلت عطا کی گئی ہے۔ “
حدیث: 5
«وعن أبى أمامة الباهلي رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول اقرءوا القرآن فإنه يأتى يوم القيامة شفيعا لأصحابه»
صحيح مسلم، کتاب فضائل القرآن باب فضل القرآن وسورة البقرة، رقم الحدیث: 1874
”حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: قرآن پڑھا کرو، وہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ “
حدیث: 6
«وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم القرآن شافع مشفع وماحل مصدق من جعله أمامه إلى الجنة ومن جعله خلف ظهره ساقه إلى النار»
صحيح ابن حبان: 331/1 – ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے روز ) قرآن مجید سفارش کرے گا اور اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (پڑھنے والوں کے حق میں) جھگڑا کرے گا اور اپنی بات منوائے گا۔ جس نے قرآن مجید کو اپنا پیشوا اور رہبر بنایا اسے جنت کی طرف لے جائے گا۔ اور جس نے اسے پیٹھ پیچھے ڈال دیا اسے جہنم میں لے جائے گا۔ “
حدیث: 7
«وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: من أراد العلم فليثور القرآن فإن فيه علم الأولين والآخرين»
مجمع الزوائد، كتاب التفسير، باب سورة الواقعة، رقم الحدیث: 11667
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو شخص علم حاصل کرنا چاہے اسے قرآن میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ قرآن مجید میں پہلے اور پچھلے تمام علوم موجود ہیں۔ “
حدیث: 8
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إني قد تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما كتاب الله وسنتي»
صحيح الجامع الصغير للألباني، رقم الحدیث: 2937
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ۔“
حدیث: 9
«وعن عمر رضي الله عنه قال: أما إن نبيكم صلى الله عليه وسلم قد قال إن الله يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين»
صحيح مسلم، کتاب فضائل القرآن، باب فضل من يقوم بالقرآن، رقم الحدیث: 1897
”اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آگاہ رہو اور تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بعض لوگوں کو غلبہ اور عروج عطا فرماتا ہے، اور بعض لوگوں کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے۔ “
حدیث: 10
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم ما من الأنبياء نبي إلا أعطي ما مثله آمن عليه البشر وإنما كان الذى أوتيت وحيا أوحاه الله إلى فارجو أن أكون أكثرهم تابعا يوم القيامة»
صحيح بخاري، کتاب فضائل القرآن باب كيف نزل الوحي، رقم: 4981
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمام انبیاء کو ایسے معجزات دیئے گئے جنہیں دیکھ کر (اس زمانہ کے) لوگ ایمان لائے لیکن مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ قرآن سے بذریعہ وحی دیا گیا (جس سے قیامت تک لوگ متاثر ہوتے رہیں گے لہذا ) مجھے امید ہے کہ قیامت کے روز مجھ پر ایمان لانے والے تعداد میں سب سے زیادہ ہوں گے۔ “
باب فضل تلاوة القرآن المجيد
تلاوت قرآن مجید کی فضیلت کا بیان
قال الله تعالى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ . لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ .﴾
(فاطر: 29، 30)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جن میں کوئی خسارہ نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ ان کو بھر پور اجر عطا فرمائے گا، اپنے فضل سے ان کے اجر میں اضافہ بھی فرمائے گا، بے شک وہ بڑا بخشن ہار اور قدر فرمانے والا ہے۔“
وقال الله تعالى: ﴿أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾
(الرعد: 28)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”آگاہ رہو، سکون قلب اللہ کے ذکر سے ملتا ہے۔“
حدیث: 11
«وعن البراء رضي الله عنه قال: كان رجل يقرأ سورة الكهف وإلى جانبه حصان مربوط بشطنين فتغشته سحابة فجعلت تدنو وتدنو وجعل فرسه ينفر فلما أصبح أتى النبى صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال تلك السكينة تنزلت بالقرآن»
صحيح بخاري، کتاب فضائل القرآن باب فضل سورة الكهف، رقم الحدیث: 5011
”اور حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک آدمی سورہ کہف کی تلاوت کر رہا تھا اور اس کے پاس ایک گھوڑا دو رسیوں سے بندھا ہوا تھا۔ دوران تلاوت ایک بادل سا آیا اور اس نے گھوڑے کو ڈھانپ لیا اور وہ بادل آہستہ آہستہ اس کے قریب آنے لگا۔ گھوڑا اسے دیکھ کر بدکنے لگا۔ جب صبح ہوئی تو وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ سکینت ہے جو تلاوت قرآن کی وجہ سے نازل ہوتی ہے۔ “
حدیث: 12
«وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر أمثالها لا أقول الم حرف ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف»
سنن ترمذی، ابواب فضائل القرآن باب ما جاء في من قرأ حرفا من القرآن، رقم: 2010 – محدث الألباني نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے۔ اور ایک نیکی کا بدلہ دس گناہ ہے۔ الم سے مراد ایک حرف نہیں بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔ “
حدیث: 13
«وعن أبى موسى الأشعري رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال مثل الذى يقرأ القرآن كالأترجة طعمها طيب وريحها طيب والذي لا يقرأ القرآن كالتمرة طعمها طيب ولا ريح لها ومثل الفاجر الذى يقرأ القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر ومثل الفاجر الذى لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة طعمها مر ولا ريح لها»
صحيح بخاري، کتاب فضائل القرآن باب فضل القرآن على سائر الكلام، رقم الحدیث: 5020
”اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے مومن کی مثال میٹھے لیموں کی سی ہے۔ اس کا ذائقہ بھی اچھا اور خوشبو بھی اچھی ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت نہ کرنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے اس کا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن خوشبو نہیں ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے گناہ گار آدمی کی مثال ریحان کی سی ہے جس کی خوشبو اچھی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہے اور قرآن مجید کی تلاوت نہ کرنے والے گناہ گار کی مثال اندرائن (کڑوے پھل کا نام) کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہے اور خوشبو بھی نہیں ہے۔ “
حدیث: 14
«وعن عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يقول لا حسد إلا على اثنتين رجل آتاه الله الكتاب فقام به آناء الليل ورجل أعطاه الله مالا فهو يتصدق به آناء الليل والنهار»
صحيح بخاري، کتاب فضائل القرآن، باب اغتباط صاحب القرآن، رقم الحدیث: 5025
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے (1) وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہو اور وہ راتوں کو بھی اس کی تلاوت کرتا اور اس پر عمل کرتا ہو۔ اور (2) وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ دن رات اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو۔ “
حدیث: 15
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الماهر بالقرآن مع السفرة الكرام البررة والذي يقرأ القرآن ويتتعتع فيه وهو عليه شاق له أجران»
صحيح مسلم، کتاب فضائل القرآن باب فضل الماهر بالقرآن، رقم الحدیث: 1862
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن مجید کی تلاوت میں مہارت رکھنے والا شخص لکھنے والے عزت دار فرشتوں کے ساتھ ہے۔ اور وہ شخص جو تلاوت کرنے میں اٹکتا ہے اور تلاوت کرنے میں دقت محسوس کرتا
ہے اس کے لیے دوا جر ہیں۔“
حدیث: 16
«وعن عبد الله رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سره أن يحب الله ورسوله فليقرأ فى المصحف»
سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم الحدیث: 2342
”اور حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنا چاہے اسے قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ “
حدیث: 17
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أيحب أحدكم إذا رجع إلى أهله أن يجد فيه ثلاث خليفات عظام سمان قلنا نعم قال فثلاث آيات يقرأ بهن أحدكم فى صلوته خير له من ثلاث خليفات عظام سمان»
صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ المسافرین، باب فضل القرائۃ القرآن فی صلاتہ رقم الحدیث 1872
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ جب اپنے گھر واپس جائے تو تین موٹی موٹی خوب صحت مند اونٹنیاں پائے؟ ہم نے عرض کیا: ہاں ! یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن مجید کی تین آیتوں کی اپنی نماز میں تلاوت کرنا ان تین اونٹنیوں سے بھی بہتر ہے۔“
باب آداب تلاوة القرآن المجيد
تلاوت قرآن مجید کے آداب کا بیان
قال الله تعالى: ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ﴾
(النحل: 98)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور قرآن پڑھتے وقت اللہ کی پناہ طلب کرو۔“
وقال الله تعالى: ﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا﴾
(المزمل: 4)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور قرآن مجید خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔“
وقال الله تعالى: ﴿وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا﴾
(الإسراء: 109)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” (اور علم والے جب یہ قرآن سنتے ہیں تو ) منہ کے بل روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں اور اس سے ان کے خشوع میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔“
حدیث: 18
وعن أبى ذر رضي الله عنه قال قام النبى صلى الله عليه وسلم بآية حتى أصبح يرددها والآية ﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾
سنن ابن ماجہ، کتاب إقامة الصلاة، باب ما جاء في القراءة في صلاة الليل، رقم الحدیث: 1300۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل میں ایک ہی آیت کو صبح تک دہراتے رہے، وہ آیت یہ ہے: ﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ ترجمہ: یا اللہ ! اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔ اور اگر انہیں معاف فرما دے تو یقینا زبر دست حکمت والا ہے۔“
حدیث: 19
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه يبلغ به النبى صلى الله عليه وسلم ما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت يتغنى بالقرآن»
صحیح مسلم، کتاب فضائل القرآن، باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن، رقم الحدیث: 1845
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جتنی توجہ سے نبی کا خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنا سنتا ہے۔“
حدیث: 20
«وعن عقبة بن عامر رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الجاهر بالقرآن كالجاهر بالصدقة والمسر بالقرآن كالمسر بالصدقة»
سنن ترمذی، ابواب فضائل القرآن، باب من قرأ القرآن فلیسأل الله به، رقم الحدیث: 2919۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ایسا ہے جیسے اعلانیہ خرچ کرنے والا۔ اور آہستہ قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے خفیہ خرچ کرنے والا۔“
حدیث: 21
«وعن حذيفة رضي الله عنه قال كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا مر باية خوف تعوذ وإذا مر باية رحمة سال وإذا مر فيها تنزيه الله سبح»
صحیح الجامع الصغیر، رقم الحدیث: 4658
”اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (دوران تلاوت ) جب خوف کی آیت سے گزرے تو اعوذ بالله کہہ کر اللہ سے پناہ طلب کرتے، جب اللہ کی رحمت کی آیت سے گزرتے اسئل الله کہہ کر اللہ کی رحمت کا سوال کرتے۔ اور جب اللہ تعالٰی کی پاکیزگی والی آیت سے گزرتے تو سبحان الله کہہ کر اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان فرماتے۔“
حدیث: 22
«وعن عبد الله بن عمرو أن النبى صلى الله عليه وسلم قال لم يفقه من قرأ القرآن فى أقل من ثلاث»
سنن ترمذی، ابواب القراءة، باب فی کم أقرأ القرآن، رقم الحدیث: 2949 سلسلة الصحیحة، رقم: 1513
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے قرآن مجید کو تین دن سے کم میں ختم کیا اس نے قرآن کو نہیں سمجھا۔“
باب أحكام سجدة التلاوة
باب: سجدہ تلاوت کے احکام کا بیان
قال الله تعاليٰ: ﴿إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا . وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا . وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا .﴾
(الإسراء: 107 تا 109)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا تھا، جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھڈیوں کے بل سجدے میں جا گرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ہمارا رب ہر عیب سے پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ اور وہ ٹھڈیوں کے عمل سجدے میں گر کر روتے ہیں، اور قرآن اُن کے خشوع کو اور بڑھا دیتا ہے۔ “
حدیث: 23
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يقرأ القرآن فيقرأ سورة فيها سجدة فيسجد ونسجد معه»
مختصر صحیح مسلم، للالبانی، رقم الحدیث: 353
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کی آیت پر آتے تو سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرتے۔“
حدیث: 24
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت كان النبى صلى الله عليه وسلم يقول فى سجود القرآن بالليل سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته»
سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث: 2723 صحیح ابو داؤد، رقم: 1247
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیام الیل کے دوران جب سجدہ تلاوت کرتے تو فرماتے: میرے چہرے نے اس ہستی کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اور اپنی طاقت و قدرت سے اس میں کان اور آنکھیں بنا ئیں ۔ “
باب فضل تعلم القرآن المجيد
قرآن مجید سیکھنے کی فضیلت کا بیان
قال الله تعاليٰ: ﴿الرَّحْمَٰنُ . عَلَّمَ الْقُرْآنَ . خَلَقَ الْإِنسَانَ . عَلَّمَهُ الْبَيَانَ.﴾
(الرحمن: 1 تا 4)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نہایت مہربان اللہ ہے، جس نے قرآن سکھایا، اس نے انسان کو پیدا کیا، اسے قوت گویائی دی۔“
حدیث: 25
«وعن عثمان رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال خيركم من تعلم القرآن وعلمه»
صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمه، رقم الحدیث: 5027
”اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔“
حدیث: 26
«وعن أبى الدرداء رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها رضا لطالب العلم وإن طالب العلم يستغفر له من فى السماء والأرض حتي الحيتان فى الماء»
سنن ابن ماجہ، کتاب السنة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، رقم الحدیث: 223 صحیح الترغیب والترہیب: 68/33/1
”اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص علم کی خاطر سفر طے کرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے جنت کا راستہ آسمان فرما دیتا ہے۔ فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اپنے پر (اس کے قدموں کے نیچے ) بچھاتے ہیں۔ طالب علم کے لیے زمین و آسمان کی ہر چیز حتی کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔“
فضل تعليم القرآن المجيد
قرآن مجید سکھانے کی فضیلت کا بیان
قال الله تعاليٰ: ﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾
(الجمعة: 2)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اُس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں، اور انہیں (کفر و شرک کی آلائشوں سے) پاک کرتے ہیں، اور انہیں قرآن وسنت کی تعلیم دیتے ہیں، بے شک وہ لوگ اُن کی بعثت سے قبل صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔“
حدیث: 27
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من جاء مسجدي هذا لم يأته إلا لخير يتعلمه أو يعلمه فهو بمنزلة المجاهد فى سبيل الله ومن جاء لغير ذلك فهو بمنزلة الرجل ينظر إلى متاع غيره»
سنن ابن ماجہ، کتاب السنة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، رقم الحدیث: 227 صحیح الترغیب: 83
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص بھلائی سیکھنے یا سکھانے کی غرض سے میری اس مسجد میں آئے اس کا درجہ مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔ اور جو شخص اس کے علاوہ کسی دوسرے (دنیاوی) مقصد کے لیے آئے اس کی مثال اس شخص کی ہے جس کی نظر دوسرے کے مال پر ہو۔“
حدیث: 28
«وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له»
صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، رقم الحدیث: 4223
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان مرتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ البتہ تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ (1) صدقہ جاریہ (2) علم، جس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں اور (3) نیک اولاد جو (اپنے والدین کے لیے) دعا کرے۔“
باب فضل حفظ القرآن المجيد عن ظهر القلب
باب: قرآن مجید یاد کرنے کی فضیلت کا بیان
قال الله تعاليٰ: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾
(الحجر: 9)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ “
حدیث: 29
«وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال يقال يعني لصاحب القرآن اقرأ وارتق ورتل كما كنت ترتل فى الدنيا منزلتك عند آخر آية تقرأ بها»
سنن ترمذی، ابواب فضائل القرآن، باب ما جاء فی من قرأ من القرآن ماله من الأجر، رقم: 2914 سلسلة الصحیحة، رقم: 2240
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے روز) صاحب قرآن سے کہا جائے گا قرآن مجید پڑھ اور (درجات) چڑھتا جا۔ اور اسی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا ۔ تیرا درجہ وہاں ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہوگی ۔“
باب الأمر يتعهد القرآن المجيد لمن حفظة
یاد شدہ قرآن مجید کی حفاظت کرنے کا اہتمام
قال الله تعاليٰ: ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ . قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا.قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ.﴾
(طه: 124 تا 126)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا، وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا، اور قیامت کے دن ہم اُسے اندھا اُٹھائیں گے، وہ کہے گا، میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے؟ دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا۔ اللہ کہے گا، اسی طرح تمہارے پاس آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا، اور اسی طرح آج بھلا دیے جاؤ گے۔“
حدیث: 30
«وعن أبى موسي بن عقبة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال تعاهدوا هذا القرآن فوالذي نفس محمد بيده لهو أشد تفلتا من الإبل فى عقلها»
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، ابواب فضائل القرآن، باب الأمر بتعهد القرآن، رقم الحدیث: 1844
”اور حضرت ابو موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن کی حفاظت کرو۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ اونٹ کی نسبت قرآن اپنے بندھن سے جلدی بھاگتا ہے۔“
حدیث: 31
«وعن سمرة بن جندب رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم فى الرؤيا قال أما الذى يبلع رأسه بالحجر فإنه يأخذ القرآن فيرفضه وينام عن الصلوة المكتوبة»
صحیح بخاری، کتاب الجمعة، ابواب التہجد، باب عقد الشیطان علی قافیة الرأس، رقم الحدیث: 1143
”اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ خواب کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرآن یاد کر کے بھلا دیتا ہے اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جاتا ہے اس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا۔“
باب فضل استماع القرآن وإسماعه
قرآن مجید سننے اور سنانے کی فضیلت کا بیان
قال الله تعاليٰ: ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾
(الأعراف: 204)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “
حدیث: 32
«وعن أسيد بن حضير رضي الله عنه قال بينما هو يقرأ من الليل سورة البقرة وفرسه مربوطة عنده إذ جالت الفرس فسكت فسكتت فقرأ فجالت الفرس فسكت وسكتت الفرس ثم قرأ فجالت الفرس فانصرف وكان ابنه يحيي قريبا منها فأشفق أن تصيبه فلما اجتره رفع رأسه إلى السماء حتي ما يراها فلما أصبح حدث النبى صلى الله عليه وسلم فقال اقرأ يا ابن حضير اقرأ يا ابن حضير قال فأشفقت يا رسول الله أن تطأ يحيي وكان منها قريبا فرفعت رأسي فانصرفت إليه ترفعت رأسي إلى السماء فإذا مثل الظلة فيها أمثال المصابيح فخرجت حتي لا أراها قال وتدري ما ذالك قال لا قال تلك الملائكة تلت لصوتك ولو قرأت لأصبحت ينظر الناس إليها لا تنواري منهم»
صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب نزول السکینۃ والملائکة عند قراءة القرآن، رقم الحدیث: 5018
”اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رات کے وقت سورہ البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے ان کا گھوڑا پاس بندھا ہوا تھا اچانک گھوڑا بدکنے لگا حضرت اسید رضی اللہ عنہ رک گئے تو گھوڑا بھی رک گیا۔ حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا بدکنے لگا۔ حضرت اسید رضی اللہ عنہ رک گئے تو گھوڑا بھی رک گیا۔ دوبارہ تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بد کنے لگا۔ حضرت اسید رضی اللہ عنہ کا بیٹا یحیی گھوڑے کے قریب ہی تھا انہیں خدشہ ہوا کہ کہیں اسے نقصان نہ پہنچائے چنانچہ اسے اپنے پاس بٹھا لیا ۔ حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو ایک سائبان نظر آیا حضرت اسید رضی اللہ عنہ اسے مسلسل دیکھتے رہے حتی کہ وہ غائب ہو گیا۔ صبح ہوئی تو حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے حضیر کے بیٹے ! قرآن پڑھتے رہا کرو، اے حضیر کے بیٹے ! قرآن پڑھتے رہا کرو۔ (یہ تمہاری سعادت کی بات ہے جو پیش آتی ہے ) حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں تو ڈر گیا تھا کہ کہیں گھوڑا ایحیی کو کچل ہی نہ دے وہ گھوڑے کے بالکل قریب ہی بیٹھا ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف توجہ کی (اور اسے اپنے پاس کر لیا)۔ پھر میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو مجھے سائبان نظر آیا جس میں چراغوں جیسی کوئی چیز روشن تھی۔ میں (گھر سے) باہر نکلا (تاکہ اچھی طرح اسے دیکھ سکوں) لیکن وہ غائب ہو گیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ فرشتے تھے جو تمہاری (اچھی ) آواز سن کر قریب آگئے تھے۔ اگر تو قرآن پڑھتا رہتا تو صبح کے وقت لوگ بھی ان فرشتوں کو دیکھ لیتے اور وہ لوگوں کی نظروں سے غائب نہ ہوتے۔“
باب فضل الوالدين لتعليم ولدها
اپنی اولاد کو قرآن مجید کی تعلیم دلوانے کی فضیلت کا بیان
قال الله تعاليٰ: ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ . خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ . الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ . عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ .﴾
(العلق: 1 تا 5)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے پیغمبر! آپ پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا ہے۔ اس نے آدمی کو غلیظ منجمد خون سے پیدا کیا ہے، پڑھیے اور آپ کا رب بے پایاں کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم دیا اس نے آدمی کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ “
حدیث: 33
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يجي القرآن يوم القيامة كالرجل الصاحب يقول لصاحبه هل تعرفني أنا الذى كنت أسهر ليلك وأظمن هو حرك وإن كل تاجر من وراء حجارته وأنا لك اليوم من وراء كل تاجر فيعطي الملك بيمينه والخلد بشمايه ويوضع على رأسه تاج الوقار ويكسي والده حلتين لا تقوم لهم الدنيا وما فيها فيقولان يارب أني لنا هذا فيقال بتعليم ولدكما القرآن وإن صاحب القرآن يقال له يوم القيامة اقرأ وارق فى الدرجات ورتل كما كنت ترتل فى الدنيا فإن منزلتك عند آخر آية معك»
سلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم الحدیث: 2829
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز قرآن مجید ایک تھکے ماندے آدمی کی شکل میں اپنے پڑھنے والے کے پاس آئے گا اور پوچھے گا مجھے پہچانتے ہو؟ میں ہی وہ ہوں جس نے تجھے راتوں کو جگایا اور تجھے گرمی میں پیاسا رکھا۔ بے شک ہر تجارت کرنے والا اپنی تجارت کا ثمر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آج میں دوسرے (نیکی کے ) تاجروں کو چھوڑ کر تیرے پاس آیا ہوں۔ چنانچہ (قرآن کی سفارش پر) پڑھنے والے کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دی جائے گی اور بائیں ہاتھ میں ہمیشگی کا پروانہ عطا کیا جائے گا ۔ اس کے سر پر وقار اور عزت کا تاج رکھا جائے گا اور اس کے والدین کو وہ قیمتی لباس پہنائے جائیں گے جس کے مقابلے میں دنیا و مافیہا کی ساری دولت ہیچ ہو گی۔ قاری کے والدین عرض کریں گے اے رب! ہماری یہ عزت افزائی کس عمل کے بدلے میں ہوئی ہے؟ انہیں جواب دیا جائے گا اپنے بیٹے کو قرآن مجید پڑھانے کے بدلے میں۔ خود قاری سے قیامت کے دن کہا جائے گا قرآن مجید جس طرح دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا اسی طرح پڑھ اور جنت کے درجات چڑھتا جا۔ تیرا آخری درجہ وہی ہوگا جہاں تیری آخری آیت ختم ہوگی۔“
باب القرآن شفاء
بیان کہ قرآن میں شفا ہے
قال الله تعاليٰ: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴾
(يونس: 57)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نصیحت آچکی ہے جس میں دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور وہ نصیحت اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت بھی ہے۔ “
وقال الله تعاليٰ: ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا﴾
(الإسراء: 82)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”ہم قرآن میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو مومنوں کے لیے شفاء ہے۔ مگر ظالموں کے لیے خسارے کے علاوہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ “
وقال الله تعاليٰ: ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ﴾
(فصلت: 44)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) کہوا یہ قرآن اہل ایمان کے لیے ہدایت اور شفاء ہے۔“
حدیث: 34
«وعن زيد بن أرقم رضى الله عنه قال كان رجل من اليهود يدخل على النبى صلى الله عليه وسلم وكان يأمنه فعقد له عقدا فوضعه فى بشر رجل من الأنصار فاشتكي لذلك أياما (وفيحديث عائشة: سنة أشهر) فأتاه ملكان يعودانه وقعد أحدهما عند رأسه والآخر عند رجليه وقال أحدهما أتدري ما وجعه قال فلان الذى كان يدخل عليه عقد له عقدا فالقاه فى بير فلان الأنصاري فلو أرسل إليه رجلا وأخذ منه العقد لوجد الماء قد اصفر فأتاه جبريل فنزل عليه بالمعوذنين وقال إن رجلا من اليهود سحرك والسحر فى بشر فلان قال فبعث رجلا وفي طريق أخري فبعث عليا رضى الله عنه فوجد الماء قد اصفر فأخذ العقد فجاء بها فأمره أن يحل العقد ويقرأ آية فحلها فجعل يقرأ ويحل فجعل كلما حل عقدة وجد لذلك خفة قبرا وفي الطريق الأخري فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم كأنما نشط من عقال وكان الرجل بعد ذلك يدخل على النبى صلى الله عليه وسلم فلم يذكر له شيئا ولم يعاتبه قط حتي مات»
سلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم الحدیث: 2761
”اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا جاتا تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعتماد تھا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (دھاگوں میں) گرہیں لگائیں۔ (یعنی جادو کیا ) اور اسے ایک انصاری کے کنوئیں میں ڈال دیا۔ اس جادو کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف رہنے لگی (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں چھ ماہ کی مدت کا ذکر ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عیادت کے لیے دو فرشتے (آدمی کی شکل میں ) حاضر ہوئے ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے پاس، ایک فرشتے نے دوسرے سے پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: فلاں شخص جو آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس آتا جاتا تھا اس نے آپ صلى الله عليه وسلم پر گر ہیں باندھ کر جادو کیا ہے اور فلاں انصاری کے کنویں میں (اشیاء) ڈالی ہیں۔ اگر آپ صلى الله عليه وسلم کسی آدمی کو بھیجیں جو گرہ شدہ دھاگے وہاں سے نکالے تو (جادو کے اثر سے ) وہ اس کنویں کا پانی زرد پائے گا (اس کے بعد ) حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ صلى الله عليه وسلم کو معوذتین پڑھنے کی ہدایت کی اور بتایا کہ یہودیوں میں سے ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا ہے جو فلاں کنویں میں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی بھیجا اور ایک روایت میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ کنویں کا پانی زرد ہو چکا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ گرہ شدہ دھاگے لے کر آئے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرہ کھولنے اور معوذتین کی آیات پڑھنے کی ہدایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیات پڑھتے جاتے اور گرہ کھولتے جاتے تھے کہ ساری گرہیں کھل گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل شفایاب ہو گئے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم باندھے گئے تھے اور (معوذتین پڑھنے کے بعد ) آزاد ہو گئے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد وہ شخص (جادو کرنے والا ) آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس آتا جاتا رہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا نہ ہی اس کی موت تک اس سے بدلہ لیا۔“
باب: القرآن ومحمد رسول الله صلى الله عليه وسلم
قرآن مجید سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کا بیان
حدیث: 35
«وعن مطرف عن أبيه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وفي صدره أزيز كأزيز الرحي من البكاء»
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، باب البکاء فی الصلاة، رقم: 904۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت مطرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کے سبب ہنڈیا کے ابلنے جیسی آواز آرہی تھی ۔“
حدیث: 36
وعن أبى ذر رضي الله عنه قال قام النبى صلى الله عليه وسلم حتي إذا أصبح بآية والآية ﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾
سنن نسائی، کتاب الافتتاح، باب تردید الآیة، رقم: 1010۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نہیں اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کے لیے کھڑے ہوئے اور ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کر دی وہ آیت یہ تھی: ﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (المائدة: 118) اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں معاف فرمادے تو تو غالب اور حکمت والا ہے۔“
باب القرآن والصحابة رضي الله عنهم
باب: قرآن مجید کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق کا بیان
حدیث: 37
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت ابتلي المسلمون خرج أبو بكر رضي الله عنه مهاجرا نحو أرض الحبشة حتي إذا بلغ برك العماد لقيه ابن الدغنة وهو سيد القارة فقال أين تريد يا أبا بكر فقال أبو بكر أخرجني قومي فأريد أن أسيح فى الأرض وأعبد ربي قال ابن الدغنة فإن مثلك يا أبا بكر لا يخرج ولا يخرج إنك تكسب المعدوم وتصل الرحم وتحمل الكل وتقري الضيف وتعين على نوائب الحق فأنا لك جار ارجع واعبد ربك ببليك فرجع وارتحل معه ابن الدغنة فطاف ابن الدغنة عشية فى أشراف قريش فقال لهم إن أبا بكر لا يخرج مثله ولا يخرج أتخرجون رجلا يكسب المعدوم ويصل الرحم ويحمل الكل ويقري الضيف ويعين على نوائب الحق فلما تكذب قريش بجوار ابن الدغنة وقالوا لابن الدغنة مر أبا بكر فليعبد ربه فى داره فليصل فيها وليقرأ ما شاء ولا يؤذينا بذلك ولا يستعلين به فإنا نخشي أن يفتن نساءنا وأبناتنا فقال ذلك ابن الدغنة لأبي بكر فلبت أبو بكر بذلك يعبد ربه فى داره ولا يستعلن بصلاته ولا يقرأ فى غير داره ثم بدا لأبي بكر فابتي مسجد بفناء داره وكان يصلي فيه ويقرأ القرآن فينقذف عليه نساء المشرкин وأبناؤهم وهم يعجبون منه وينظرون إليه وكان أبو بكر رجلا بكاء لا يملك عينيه إذا قرأ القرآن وأفزع ذلك أشراف قريش من المشرкин فأرسلوا إلى ابن الدغنة فقدم عليهم فقالوا إنا كنا أجرنا أبا بكر بجوارك على أن يعبد ربه فى داره فقد جاوز ذلك فابتي مسجدا بفناء داره فأعلن بالصلاة والقراءة فيه وإنا قد خشينا أن يفتن نساءنا وأبناءنا فانهه فإن أحب أن يقتصر على أن يعبد ربه فى داره فعل وإن أبى إلا أن يعلن بذلك فسله أن يرد إليك دمتك فإنا قد كرهنا أن تخفرك ولسنا مقرين لأبي بكر الإستعلان قالت عائشة فأتي ابن الدغنة إلى أبى بكر فقال قد علمت الذى عافدت لك عليه فإما أن تقتصر على ذلك وإما أن ترجع إلى ذمتي فإني لا أحب أن تسمع العرب أني أخفرت فى رجل عقدت له فقال أبو بكر فإني أرد إليك جوارك وأرضي بجوار الله عزوجل»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب ہجرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم الحدیث: 3905
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مسلمانوں کو قریش مکہ کی طرف سے سخت تکلیفیں دی جانے لگیں تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہجرت کے لیے مکہ سے نکلے۔ جب برک الغماد پہنچے تو قارہ قبیلہ کے سردار ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا: ابو بکر رضی اللہ عنہ ! کہاں جا رہے ہو؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میری قوم نے مجھے نکال دیا، میں کسی دوسرے ملک جا رہا ہوں تاکہ اپنے رب کی عبادت کر سکوں۔ ابن دغنہ نے کہا: ابو بکر! تجھ جیسا شریف آدمی نہ نکلتا ہے نہ نکالا جاتا۔ تم بے سہاروں کو سہارا دیتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، دوسروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہو، مہمان کی عزت کرتے ہو، اور جھگڑوں میں حق کی حمایت کرتے ہو۔ لہٰذا میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں، واپس چلو اور اپنے شہر میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کے کہنے پر مکہ واپس آئے۔ شام کے وقت ابن دغنہ قریشی سرداروں کے پاس گیا اور کہا: ابو بکر جیسا آدمی کبھی خود نہیں نکلتا نہ نکالا جاتا۔ کیا تم ایک ایسے آدمی کو نکالنا چاہتے ہو جو بے سہاروں کا سہارا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے، اور معاملات میں حق کی حمایت کرتا ہے؟ قریش نے ابن دغنہ کی امان کی توثیق کی، لیکن کہا: ابو بکر کو کہو کہ اپنے گھر میں رہ کر اللہ کی عبادت کرے، نماز پڑھے، قرآن پڑھے جتنا چاہے، لیکن ہمیں اذیت نہ دے اور علانیہ یہ کام نہ کرے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے فتنے میں پڑ جائیں۔ ابن دغنہ نے یہ باتیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس شرط پر مکہ میں رہے کہ وہ گھر کے اندر عبادت کریں گے، علانیہ نماز نہ پڑھیں گے اور گھر سے باہر قرآن کی تلاوت نہ کریں گے۔ پھر اچانک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی، اس میں نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے لگے۔ مشرکین کی عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر ان کی تلاوت سنتے اور حیران ہوتے، ان کی طرف دیکھتے رہتے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بہت رونے والے تھے، جب قرآن پڑھتے تو آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا۔ یہ دیکھ کر قریش نے ابن دغنہ کو بلا بھیجا۔ وہ آیا تو انہوں نے شکایت کی کہ ہم نے تیری امان اس شرط پر قبول کی تھی کہ ابو بکر اپنے گھر میں عبادت کرے گا، لیکن اس نے شرط توڑی، صحن میں مسجد بنائی اور علانیہ نماز اور تلاوت کرتا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے گمراہ ہو جائیں۔ اسے روک، اگر وہ گھر میں عبادت پر راضی ہو تو ٹھیک، ورنہ اپنی امان واپس لے لو۔ ہم تیری امان نہیں توڑنا چاہتے، لیکن ابو بکر کی علانیہ عبادت ہمیں برداشت نہیں۔ ابن دغنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تیری خاطر کیا شرط کی تھی۔ یا تو اس پر قائم رہو یا میری امان واپس کرو۔ میں نہیں چاہتا کہ عرب سنیں کہ میری امان توڑی گئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں تیری امان واپس کرتا ہوں اور اللہ عزوجل کی امان پر راضی ہوں۔“
حدیث: 38
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال كان القراء أصحاب مجالس عمر رضي الله عنه ومشاورته كهولا كانوا أو شبانا»
صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب تفسیر سورة الأعراف، باب خذ العفو، رقم الحدیث: 4642
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (امور ملکیت چلانے کے لیے )بیٹھنے والے اور مشورہ دینے والے تمام (حضرات) قرآن مجید کے قاری ہوتے ، خواہ بوڑھے ہوتے یا جوان۔“
باب عقاب من قرة القرآن ولم يعمل به
قرآن مجید پڑھنے اور اس پر عمل نہ کرنے کی سزا کا بیان
قال الله تعاليٰ: ﴿مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
(الجمعة: 5)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اُن لوگوں کی مثال جنہیں تو راہ پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا، اس گدھے کی ہے جو گناہوں کا بوجھ اُٹھائے پھرتا ہے، بڑی بڑی مثال ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلا دیا، اور اللہ ظالم قوم کو راہ راست نہیں دکھاتا ہے۔“
حدیث: 39
«وعن أسامة رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاء بالرجل يوم القيامة فيلقي فى النار فتندلق أفتابه فى النار فيدور كما يدور الحمار برحاه فيجتمع أهل النار عليه فيقولون أى فلان ما شأنك أليس كنت تأمرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر قال كنت أمركم بالمعروف ولا آتيه وأنهاكم عن المنكر وآتيه»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة النار، رقم الحدیث: 3268
”اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک آدمی کو لیا جائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا اس کی انتریاں پیٹ سے باہر نکل آئیں گی۔ پھر جس طرح گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے اسی طرح وہ آدمی اپنی انتڑیوں کے گرد گھومے گا۔ اہل جہنم اس کے پاس اکٹھے ہوں گے اور پوچھیں گے اے فلاں ! تمہیں کیا ہوا؟ تم تو ہمیں نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے روکتے تھے؟ وہ جواب دے گا ہاں ! میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا تمہیں برائی سے روکتا تھا لیکن خود برائی کا ارتکاب کرتا تھا۔“
باب عقاب من قال فى القرآن برأيه
اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کرنے کی سزا کا بیان
قال الله تعاليٰ: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾
(فصلت: 40)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات میں تحریف کرتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں۔ بھلا جو شخص آگ میں ڈالا جانے والا ہے، اچھا ہے یا وہ قیامت کے روز امن کے ساتھ آنے والا ہے؟ تم جو چاہو کرو (لیکن یاد رکھو) جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے یقینا د یکھنے والا ہے۔“
حدیث: 40
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال المراء فى القرآن كفر»
سنن ابو داؤد، کتاب السنة، باب النهی عن الجدال فی القرآن، رقم الحدیث: 4603۔ محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔“
وصلي الله تعالىٰ على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين