فرشتہ ہونے کے دعویٰ کی قرآنی تردید
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اس طرح نبى كريم ﷺ كو بھی فرشتہ ہونا چاہئے!

سوال کی بنیاد:

یہ سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ملائکہ (فرشتے) کو صرف رزق پیدا کرنے والی قوتوں کے طور پر سمجھا جائے، جیسا کہ "ابلیس و آدم” کے اقتباس میں کہا گیا ہے۔ اس اقتباس کے مطابق، ملائکہ دراصل انسان کی باطنی اور داخلی قوتیں ہیں۔ اس مفہوم کو اگر تسلیم کر لیا جائے اور جیسا کہ پرویز صاحب کا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید میں ملائکہ کا یہی مفہوم مراد ہے، تو پھر:

◈ صاحبِ قرآن (یعنی رسول اللہ ﷺ) کو اس قرآنی مفہوم کے اعتبار سے پوری طرح اس صفت سے متصف ہونا چاہیے تھا۔
◈ کم از کم رسول کریم ﷺ کو یہ انکار نہیں کرنا چاہیے تھا کہ وہ "مَلَك” (فرشتہ) نہیں ہیں، کیونکہ:
◈ آپ ﷺ قرآن کے عملی مفاہیم کا کامل نمونہ تھے۔
◈ اگر ملائکہ کو رزق پیدا کرنے والی قوتیں مانا جائے تو یہ قوتیں آپ ﷺ میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔
◈ لہٰذا، منطقی طور پر آپ ﷺ کو "فرشتہ” یا "مَلَك” قرار پانا چاہیے تھا۔

قرآن کا واضح اعلان:

لیکن اس کے برعکس، قرآن مجید بہت واضح طور پر یہ بیان کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے فرشتہ ہونے کی نفی فرماتے تھے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿قُلْ لاَ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِىْ خَزَائِنُ اللہ وَلاَ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلاَ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ، اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَايُوْحىٰ اِلَىَّ… ﴾ (الانعام: ٥٠)

”اے پیغمبر! تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں، اور نہ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ میں ‘مَلَك’ (فرشتہ) ہوں، میری حیثیت تو فقط یہ ہے کہ اس بات پر چلتا ہوں جو خدا کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔“

نتیجہ:

اس آیت سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مَلَك (فرشتہ) ہیں، بلکہ خود اپنے انسان ہونے کا اعلان کیا اور یہ بتایا کہ وہ صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتے ہیں۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا مفہوم جو پرویز صاحب بیان کرتے ہیں، وہ قرآن کی اس صراحت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1