فرشتوں کے خارجی وجود پر ایمان کی 10 دلیلیں
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

فرشتوں پر ایمان

ایمان بالملائکہ

ایمان بالملائکہ (فرشتوں پر ایمان) اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ قرآنِ کریم کی کئی آیات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ فرشتے ایک خارجی وجود اور انفرادی تشخص رکھنے والی مخلوق ہیں۔ وہ غیبی مخلوق ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا ہے۔

فرشتوں کی تخلیق اور صفات

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فرشتے نور سے تخلیق کیے گئے۔

لہٰذا، فرشتوں پر ایمان لانا دراصل ایمان بالغیب کا ایک حصہ ہے۔

◈ تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔
◈ ان میں خدائی صفات نہیں پائی جاتیں۔
◈ اللہ تعالیٰ نے انہیں صرف اپنی اطاعت و بندگی کے لیے پیدا فرمایا۔
◈ یہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں۔
◈ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور ہمیشہ اس کے مطیع رہتے ہیں۔

فرشتوں کی کارکردگی اور کردار

◈ فرشتے آسمان سے زمین پر اترتے ہیں اور زمین سے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔
◈ حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام بھی انہی فرشتوں میں شامل ہیں۔
◈ کچھ فرشتے دو، تین اور چار پر رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔
◈ غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لیے نازل ہوئے۔

یہ تمام حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ فرشتے ایک خارجی وجود رکھتے ہیں۔ مگر چونکہ یہ مخلوق ہماری حواس اور مشاہدے سے ماورا ہے، اس لیے بعض لوگ ان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار: پرویز کا مؤقف

فرشتوں کے خارجی وجود سے انکار کرتے ہوئے مسٹر پرویز لکھتے ہیں:

"ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں یعنی ہمارے اعمال کے وہ اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں-”
(ابلیس و آدم از پرویز: ص 162)

پرویز کے نزدیک "فرشتے” کیا ہیں؟

پرویز کے مطابق، فرشتے انسان سے الگ کوئی مخلوق نہیں ہیں۔

ان کے خیال میں فرشتے دراصل انسان کے اندرونی جذبات، قوتوں اور نفسیاتی توانائیوں کا نام ہے۔

اس کے برعکس، قرآنِ کریم میں فرشتوں کو انسان سے بالکل الگ اور مخصوص مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

قرآن کا مؤقف

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِىِّ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ (الاحزاب: 56)

"یعنی اے جماعتِ مؤمنین! دیکھو، اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود و سلام بھیجا کرو۔”

اگر فرشتے صرف انسان کی داخلی قوتیں ہوتیں، جیسا کہ پرویز صاحب کا دعویٰ ہے، تو مذکورہ آیت میں فرشتوں کو اہلِ ایمان سے الگ کیوں ذکر کیا گیا؟ جبکہ اہلِ ایمان کی درود بھیجنے کی ہدایت میں ان کی داخلی قوتیں از خود شامل ہوتیں۔ فرشتوں کو مؤمنین سے الگ ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ فرشتے کوئی ذہنی یا نفسیاتی قوت نہیں بلکہ انسان سے الگ ایک نورانی مخلوق ہیں۔

پرویز کے مادّی نظریات

چونکہ پرویز کا ذہن مادیت پر مبنی تھا، وہ کسی ایسی ہستی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے جو غیر مرئی ہو۔ ان کے افکار یہاں تک جا پہنچے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی محسوس شکل میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جیسا کہ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

"اللہ سے مراد وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندی کو نافذ کرنے کے لیے متشکل ہو”
(نظامِ ربوبیت: ص 158)

غور کریں: جو شخص اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو بھی اپنی ذہنی گمراہی سے محفوظ نہ رکھ سکا، وہ فرشتوں کو کس طرح روحانی مخلوق مان سکتا تھا؟ چنانچہ وہ فرشتوں کی مادی توجیہہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ملائکہ یعنی کائنات کی قوتیں جن سے رزق پیدا ہوتا ہے، انسان کے تابع فرمان ہیں-”
(ابلیس و آدم از پرویز: ص 52)

نتیجہ

یہ تمام دلائل اور وضاحتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ فرشتے کوئی نفسیاتی قوت یا انسانی کیفیت نہیں، بلکہ ایک خارجی، نورانی اور مستقل مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1