آدمی فجر کی فرض نماز کے بعد سنتیں ادا کر سکتا ہے – تفصیلی شرعی حوالہ
سوال:
کیا آدمی فجر کی فرض نماز کے فوراً بعد سنتیں ادا کر سکتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس بارے میں کوئی حدیث یا شرعی حوالہ پیش کریں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فجر کی فرض نماز کے بعد سنت ادا کرنے کے بارے میں سنن دارقطنی کی ایک معتبر روایت موجود ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
حدیث کا اصل حوالہ:
امام دارقطنی رحمہ اللہ اپنی "سنن” میں روایت کرتے ہیں:
قَالَ الدَّارَقُطْنِیْ فِیْ سُنَنِهِ : حَدَّثَنَا اَبُوْبَکَرِ النَّيْسَابُوْرِیْ، ثَنَا الرَّبِيْعُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَنَصْرُ بْنُ مَرْذُوْقٍ قَالاَ : نَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی، ثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيٰی بْنِ سَعِيْدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّه أَنَّه جَائَ وَالنَّبِیُّ ﷺ يُصَلِّیْ صَلاَةَ الفَجر، فَصَلّٰی مَعَه، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ ﷺ: مَا هَاتَانِ الرَّکْعَتَانِ ؟ قَالَ : لَمْ أَکُنْ صَلَّيْتُهُمَا قَبْلَ الْفَجْرِ، فَسَکَتَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا.
(سنن دارقطنی، ص ۳۸۴، الجزء الاول، باب قَضَائِ الصَّلاَةِ بَعْدَ وَقْتِهَا وَمَنْ دَخَلَ فِی صَلاَةٍ فَخَرَجَ وَقْتُهَا قَبْلَ تَمَامِهَا، کتاب الصلاة)
ترجمہ:
حضرت یحییٰ بن سعید اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس حالت میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپ ﷺ فجر کی نماز ادا فرما رہے تھے۔ پس انہوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا، تو وہ کھڑے ہوئے اور فجر کی دو رکعات سنت ادا کیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا: "یہ دو رکعتیں کیا تھیں؟” انہوں نے عرض کیا: "میں نے انہیں فجر سے پہلے نہیں پڑھا تھا۔” تو نبی کریم ﷺ خاموش ہو گئے اور کچھ نہ فرمایا۔
دیگر کتب حدیث میں بھی یہ روایت موجود ہے:
یہی حدیث مستدرک حاکم، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں بھی مذکور ہے، جو اس کی صحت اور مقبولیت پر دلالت کرتی ہے۔
حدیث «لاَ صَلٰوةَ بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ» کی وضاحت:
بعض افراد حدیث:
«لاَ صَلٰوةَ بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ» (فجر کے بعد کوئی نماز نہیں)
کا حوالہ دیتے ہیں کہ فجر کی فرض نماز کے بعد نماز پڑھنا منع ہے۔
لیکن علماء نے وضاحت کی ہے کہ اس میں عموم نہیں بلکہ تخصیص ہے۔ خود حنفی علماء اس بات کے قائل ہیں کہ فجر کی فرض نماز کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے فوت شدہ فرض نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
جب وہ حدیث «لاَ صَلٰوةَ بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ» میں تخصیص کے قائل ہیں تو سنن دارقطنی کی مذکورہ حدیث کے ساتھ اس حدیث میں تخصیص ماننے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
فجر کی سنتوں کا وقت:
◈ فجر کی فرض نماز کا وقت طلوعِ آفتاب تک ہے۔
◈ اسی طرح فجر کی سنتوں کا وقت بھی طلوعِ آفتاب تک ہی رہتا ہے۔
◈ اس لیے اگر فجر کی سنتیں فرض کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے ادا کی جائیں تو یہ اداء ہوں گی، نہ کہ قضاء۔
سنتوں کو مؤخر کر کے بعد میں قضاء کرنا؟
اگر فجر کی سنتیں فرض نماز کے بعد نہ پڑھی جائیں اور انہیں سورج نکلنے کے بعد ادا کیا جائے تو وہ قضاء شمار ہوں گی۔ تو ایسی صورت میں اداء کو چھوڑ کر قضاء کو اختیار کرنا نہ کوئی عزیمت ہے اور نہ ہی فضیلت۔
فجر کے بعد سنتیں طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھنے کی کوئی دلیل نہیں:
جبکہ فجر کی فرض نماز کے بعد، طلوعِ آفتاب سے پہلے سنتیں ادا کرنے کی اجازت مذکورہ صحیح روایات سے ثابت ہے، لیکن اس کے برعکس یہ کہ فجر کی سنتیں طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھی جائیں، اس پر کوئی صحیح یا حسن حدیث موجود نہیں ہے۔
نتیجہ:
◈ اگر فجر کی سنتیں کسی وجہ سے رہ جائیں تو انہیں فرض نماز کے فوراً بعد، طلوعِ آفتاب سے پہلے ادا کرنا جائز ہے۔
◈ یہ طریقہ حدیثِ نبوی ﷺ سے ثابت ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔
◈ طلوعِ آفتاب کے بعد ان سنتوں کو ادا کرنا جائز تو ہے، لیکن یہ قضاء شمار ہوگا، جو فضیلت کے خلاف ہے۔
ھٰذا ما عندی، واللہ أعلم بالصواب