اب رہی یہ بات کہ اقامت ہو جانے تک جس نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو پھر وہ کب پڑھے؟
اس کا جواب دو قسم کی احادیث میں ملتا ہے۔ ایک وہ جن میں طلوع آفتاب کے بعد سنتیں پڑھنے کا ذکر ہے، جیسا کہ ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے:
من لم يصل ركعتي الفجر فليصلها بعد ما تطلع الشمس
ترمذی مع التخفہ 493/2، جامع الاصول لابن الاثیر 17/7
جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھ لے۔
دارقطنی و حاکم کے الفاظ ہیں:
من لم يصل ركعتي الفجر حتى تطلع الشمس فليصلها
التخفہ ایضاً
جو شخص طلوع آفتاب تک فجر کی سنتیں نہ پڑھ چکا ہو تو وہ (سورج نکلنے پر) پڑھ لے۔
ترمذی شریف والی اس روایت کو شارح ترمذی علامہ عبدالرحمن نے غیر محفوظ قرار دیا ہے۔
التحفہ 493/2
اسی طرح ابن ابی شیبہ میں آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ضمن میں اور موطا امام مالک میں بلاغات امام صاحب میں سے ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی فجر کی سنتیں فوت ہو گئیں تو انہوں نے وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھیں۔
موطا مع التنویر الحوالك 138/1، التخفہ 494/2، جامع الاصول 17/7
جواب:
یہ اثر تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل پر موقوف ہے، البتہ پہلی روایت مرفوع ہے مگر اس کا متن غیر محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ امام شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ یہ روایت اس بات پر بھی صریح دلالت نہیں کرتی کہ جو شخص انہیں فرضوں سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ طلوع آفتاب سے پہلے انہیں نہ پڑھے، بلکہ اس حدیث میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ جس نے مطلوبہ سنتیں نہ پڑھی ہوں تو وہ سورج نکلنے کے بعد انہیں پڑھ لے، اور اس میں شک نہیں کہ اگر وہ وقت ادا میں چھوٹ گئی ہوں تو وقت قضاء میں پڑھی جائیں گی۔ اور حدیث مذکور میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ ان کا فرضوں کے بعد پڑھنا منع ہے، جیسا کہ دارقطنی و بیہقی اور حاکم کے الفاظ:
من لم يصل ركعتي الفجر حتى تطلع الشمس فليصلها
نیل الاوطار 25/3/2
جس نے سورج طلوع ہونے تک فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھ لے ۔ سے پتا چلتا ہے۔
فرضوں کے بعد پڑھنے کے دلائل:
علاوہ ازیں، طلوع آفتاب سے پہلے ہی فرضوں کے بعد سنتیں ادا کر لینے کی اجازت اور عدم کراہت کی دلیل خود حدیث شریف میں موجود ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں یہ تو ہے کہ فجر کی نماز سے لے کر طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں، لیکن بعض دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ یہ حکم عام نفلی نماز کا ہے۔
(1)فجر کی فرض سے پہلے والی سنتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، وہ فرضوں کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابن حبان، دارقطنی، بیہقی، مستدرک حاکم، مصنف عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ اور مسند احمد سمیت حدیث کی دس معتبر کتابوں میں حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے تو نماز (فجر) کی اقامت کہی گئی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر (صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف) رخ انور کیا تو مجھے پھر نماز پڑھتے ہوئے پایا تو ارشاد ہوا:
مهلا يا قيس أصلاتان معا
اے قیس! ٹھہرو، کیا ایک ہی وقت میں دو نمازیں پڑھو گے؟
تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں فجر کی پہلی دو سنتیں نہیں پڑھ سکا تھا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فلا إذن
ابوداؤد مع العون 144/4، ترمذی مع التحفہ 487/2، ابن ماجہ 365/1، ابن خزیمہ 164/2، ابن ابی شیبہ 254/2
تو پھر کوئی حرج نہیں
(2) محلی ابن حزم میں حضرت عطاء کسی انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز فجر کے بعد نماز پڑھ رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں، اب وہی پڑھ رہا ہوں۔
فلم يقل له شيئا
محلی 154/2، تحقیق ڈاکٹر عبد الغفار سلیمان البنداری، مسألہ 308، طبع 1408ھ 1988ء، دار الکتب العلمیہ بیروت
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نہیں کہا
(3)سنن ابوداؤد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
صلوة الصبح ركعتان
فجر کے تو صرف دو ہی فرض ہیں
تو اس نے جواب دیا کہ میں نے پہلی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں، وہ اب ادا کی ہیں۔
فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم
ابوداؤد 144/4
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے
التمہید لابن عبد البر میں سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
وكان إذا رضي شيئا سكت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام پر رضامند ہوتے تو خاموشی اختیار فرماتے تھے
(4)صحیح ابن حبان وابن خزیمہ میں ثقہ راویوں کی سند سے مروی ہے۔ حضرت قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر ادا کی اور میں سنتیں نہیں پڑھ سکا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو انہوں نے کھڑے ہو کر دو سنتیں پڑھیں۔
ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه فلم ينكر عليه
ابن خزیمہ 163/2، تحفہ الاحوذی 490/2
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ رہے تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی (منع نہیں کیا)
(5)مصنف ابن ابی شیبہ میں فرضوں کے بعد اٹھ کر سنتیں پڑھنے والے صحابی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کر چکے تھے اور میں نے ابھی سنتیں نہیں پڑھی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھانے کے دوران جماعت کے پاس کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنا میں نے مکروہ و ناپسندیدہ سمجھا، اور جب نماز ختم ہوئی تو میں نے وہ سنتیں ادا کیں۔ یہ سن کر:
ولم يأمره ولم ينهه
ابن ابی شیبہ 654/2
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا
اسی طرح مجمع الزوائد میں طبرانی کبیر کے حوالہ سے ایک متکلم فیہ روایت ہے جسے علامہ شمس الحق عظیم آبادی شارح ابوداؤد اپنی کتاب اعلام اهل العصر باحكام ركعتي الفجر میں ابن الاثیر کے حوالہ سے لائے اور تصحیح کی ہے۔ اس میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میری طرف متوجہ ہوئے جبکہ میں فجر کی پہلی سنتیں پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھنے لگے۔ جب میں سنتوں سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألم تصل معنا؟
کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ فجر کی دو سنتیں پڑھ رہا ہوں کیونکہ میں گھر سے پڑھ کر نہیں آیا تھا۔ راوی واقعہ صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فلم يعب ذلك على
اعلام اهل العصر ص 231، علامہ شمس الحق عظیم آبادی
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کی وجہ سے مجھ پر کوئی اعتراض نہیں کیا
ان سب احادیث میں اس بات کی واضح صراحت موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی مرتبہ فرضوں کے بعد اٹھ کر فجر کی پہلی سنتیں پڑھی گئیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی اعتراض نہیں کیا، بلکہ بعض کو فلا إذن کے کہہ کر جواب دیا کہ تب پھر کوئی حرج نہیں، اور بعض کی وضاحت پر کہ یہ سنتیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کا ثبوت ہے۔
حضرت عطاء، طاؤس اور ابن جریج رحمہم اللہ کے ارشاد، جن سے جواز کا پتا چلتا ہے، ان کی تفصیل مصنف عبدالرزاق جلد دوم ص 442 پر دیکھی جاسکتی ہے۔
التمہید لابن عبد البر میں سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
وكان إذا رضي شيئا سكت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام پر رضامند ہوتے تو خاموشی اختیار فرماتے تھے
ورنہ ناجائز کام ہوتا دیکھ کر خاموشی اختیار کر لینا تو شان نبوت اور مقام رسالت کے منافی ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور روک دیتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔
نماز ظہر کی سنتیں
نماز ظہر کی سنن راتبہ یا مؤکدہ سنتیں: نماز ظہر کی سنن راتبہ یا مؤکدہ سنتوں کی تعداد کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح کی احادیث ثابت ہیں۔ بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ ان کی کل تعداد صرف چار ہے، دو فرضوں سے پہلے اور دو بعد میں، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين قبل الظهر وركعتين بعدها
جامع الاصول 17/7، نیل الاوطار 14/3/2
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو اور ظہر کے بعد دو سنتیں پڑھیں
بعض دیگر احادیث سے ان کی تعداد چھ معلوم ہوتی ہے، چار پہلے اور دو بعد میں، جیسا کہ مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی مروی حدیث میں ہے: چار ظہر سے پہلے اور دو بعد میں۔
نیل الاوطار 16/3/2، مختصر مسلم ص 102
اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسلم شریف میں مروی ہے:
وكان يصلي فى بيتي قبل الظهر أربعا ثم يخرج فيصلي بالناس ثم يدخل فيصلي ركعتين
مشکاة 322/1، تحقیق الالبانی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار سنتیں پڑھا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعتیں پڑھتے
ظہر سے پہلے کی چار اور دو سنتوں والی تمام احادیث ہی صحیح اور قوی ہیں اور ان کے مابین کوئی تعارض بھی نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: بہتر یہ ہے کہ ان روایات کو اس چیز پر محمول کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے کبھی چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو۔ ان دو طرح کی احادیث کو اس چیز پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں دو رکعتیں پڑھ لیتے اور گھر میں پڑھتے تو چار پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جیسے دیکھا ویسا بیان کر دیا۔ جبکہ ابوجعفر طبری فرماتے ہیں کہ ظہر سے پہلے اکثر اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار سنتیں پڑھتے تھے اور قلیل اوقات میں (کبھی کبھی) دو پر ہی اکتفا کر لیتے تھے۔
نیل الاوطار 15/3/2، تحفہ الاحوذی 496/2
ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد، مستدرک حاکم اور شرح السنہ بغوی میں ارشاد نبوی ہے:
من حافظ على أربع ركعات قبل الظهر وأربع بعدها حرمه الله على النار
جامع الاصول 18/7، نیل الاوطار 16/3/2، شرح السنہ 464/3 و قال محققوه هو حدیث صحیح مجموع طرقه وصححه الالبانی فی المشکاة 368/1
جو شخص چار ظہر سے پہلے اور چار بعد میں ہمیشہ پڑھے گا، اللہ اسے آگ پر حرام کر دے گا
اس حدیث سے ظہر کے بعد بھی چار رکعتوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ الغرض وقت اور گنجائش جیسی ہو ویسے ہی کیا جا سکتا ہے، دونوں طرف صحیح احادیث موجود ہیں۔
ظہر کی پہلی چار سنتوں کو ایک سلام سے پڑھنے کے بارے میں ابوداؤد، ابن ماجہ اور شمائل ترمذی میں ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چار سنتوں کے مابین سلام نہیں پھیرتے تھے، یعنی چاروں رکعتوں کو ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔ اس حدیث کو خود امام ابوداؤد نے ہی ضعیف قرار دیا ہے۔
شرح السنہ 465/3
یہی حدیث موطا امام محمد میں بھی ایک دوسری سند سے مروی ہے، مگر وہ بھی ضعیف ہے۔ کبار محدثین میں سے امام ابوداؤد، ابن خزیمہ، امام نسائی، ابن معین، امام احمد اور ابوزرعہ نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ان سنتوں کو دو سلاموں سے دو دو رکعتیں کر کے پڑھنے کے بارے میں سنن اربعہ، صحیح ابن خزیمہ، ابن حبان اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
صلوة الليل والنهار مثنى مثنى
شرح السنہ 469/3، تحفہ الاحوذی 297/2
رات اور دن کی (نفلی) نماز دو دو رکعتیں کر کے ہے
یہ حدیث تو بخاری و مسلم میں بھی ہے، مگر وہاں دن کا ذکر نہیں، بلکہ صرف رات کی نماز کا ہے۔ البتہspan class=”ref”> بخاری (201/2) میں بیہقی بن سعید انصاری تابعی سے تعلیقی روایت ہے:
ما أدركت فقهاء أهل المدينة إلا يسلمون فى كل ركعتين من سنن النهار
span class=”ref”> بحوالہ تحقیق شرح السنہ 469/3
میں نے اپنے علاقے (مدینہ منورہ) کے فقہاء کو دیکھا ہے کہ وہ سب دن میں ہر دو رکعتوں (سنن و نوافل) کے بعد سلام پھیرتے تھے
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں سنن کی اس روایت میں دن کے اضافے پر کلام کیا اور امام نسائی و ابن معین نے بھی کلام کیا ہے۔ چونکہ دونوں طرح کی احادیث متکلم فیہ ہیں، لہذا علامہ عبدالرحمن نے تحفہ الاحوذی 498/2 میں لکھا ہے کہ کوئی ایک سلام سے چاروں رکعتوں کو اکٹھی پڑھ لے یا دو سلاموں سے دو دو کر کے پڑھ لے، دونوں طرح ہی جائز ہے۔ ظہر کی پہلی سنتیں بھی اگر فرضوں سے پہلے نہ پڑھی جاسکیں تو انہیں فرضوں کے بعد پڑھ لیں، کیونکہ ترمذی وابن ماجہ میں جید سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
وإن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا لم يصل أربعا قبل الظهر صلاهن بعده
نیل الاوطار 26/3/2، تحفہ الاحوذی 499/2
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھ پاتے تو انہیں بعد میں پڑھ لیتے تھے
ابن ماجہ میں ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فاتته الأربع قبل الظهر صلاهن بعد الركعتين بعد الظهر
نیل الاوطار 26/3/2، تحفہ الاحوذی 499/2
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر سے پہلے والی چار رکعتیں رہ جاتیں تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد والی دو سنتوں کے بعد پڑھ لیتے تھے
اگر کبھی ظہر کے بعد والی دو سنتیں قضاء ہو جائیں اور عصر کا وقت ہو جائے تو وہ عصر کے بعد بھی پڑھی جاسکتی ہیں، جیسا کہ بخاری و مسلم وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مروی ہے۔
انظر النیل 27/3/2
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہمیشہ پڑھتے رہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، جیسا کہ مسلم و نسائی میں ہے:
ثم داوم وكان إذا صلى صلاة داوم عليها
النیل 28/3/2
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسلسل پڑھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی کام کرتے تو اس پر ہمیشگی فرماتے
نماز عصر کے ساتھ کوئی مؤکدہ سنت نماز نہیں، البتہ غیر مؤکدہ سنتیں ہیں جن کا تذکرہ آگے آنے والا ہے۔
مغرب و عشاء کی مؤکدہ سنتیں
نماز پنجگانہ کی مؤکدہ سنتوں کا ذکر چل رہا ہے اور فجر و ظہر کی تفصیل گزر چکی ہے، جبکہ عصر کے ساتھ مؤکدہ سنتیں کوئی نہیں ہیں۔ رہی مغرب و عشاء تو نماز مغرب کے فرضوں کے بعد دو سنتیں اور نماز عشاء کے فرضوں کے بعد بھی دو سنتیں مؤکدہ ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں مغرب کے بعد دو رکعتوں اور عشاء کے بعد دو رکعتوں کا ذکر آیا ہے، اور مسلم شریف و سنن النسائی میں ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں بھی مغرب و عشاء کے بعد دو دو سنتوں کا ذکر ہے۔
دیکھیے عنوان نماز ظہر کی سنن راتبہ، نیل الاوطار 14,15,16/3/2، مختصر الالبانی ص 106
صحیح مسلم و ابوداؤد میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مغرب و عشاء کے بعد گھر آکر دو دو سنتیں پڑھنا مروی ہے۔
مشکاة 366/1
مغرب کی ان دو مؤکدہ سنتوں میں بھی فجر کی سنتوں کی طرح پہلی میں قُلْ يَأَيُّهَا الْكَفِرُونَ اور دوسری میں قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ پڑھنا بہتر ہے۔
المغنی 127/2، صفت صلوة النبي صلی اللہ علیہ وسلم
اس طرح نماز پنجگانہ کی مؤکدہ سنتوں کی تعداد ظہر سے قبل چار کی شکل میں کل بارہ اور ظہر سے قبل دو کی شکل میں کل دس بنتی ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کل دس سنتوں کی حدیث ہی مروی ہے، جبکہ ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ والی حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
ومن صلى فى يوم وليلة اثنتي عشرة ركعة سوى المكتوبة بني له بيت فى الجنة
سابقہ حوالہ
جس نے ایک دن اور رات میں فرضوں کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بن گیا
نماز پنجگانہ کی غیر مؤکدہ سنتیں
نماز پنجگانہ کی ان مؤکدہ دس یا بارہ سنتوں کے علاوہ بعض نمازوں کے ساتھ کچھ غیر مؤکدہ سنتوں کا ثبوت بھی احادیث سے ملتا ہے، جن کا حکم ان کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ غیر راتبہ یا غیر مؤکدہ ہیں۔ کوئی پڑھ لے تو ثواب ہے، نہ پڑھے تو گناہ نہیں ہوتا۔ ایسی سنتوں میں سے نماز فجر اور ظہر کے ساتھ تو کوئی نہیں، اس طرح نماز فجر کی کل چار ہی رکعتیں ثابت ہیں، جن میں سے دو سنتیں مؤکدہ اور دو فرض ہیں، اور نماز ظہر کی اگر فرضوں سے پہلے دو مؤکدہ سنتوں والی حدیث پر عمل کیا جائے تو آٹھ رکعتیں ہوئیں: دو مؤکدہ سنتیں پہلے، پھر چار فرض اور بعد میں پھر دو مؤکدہ سنتیں۔ اور اگر فرضوں سے پہلے چار مؤکدہ سنتوں والی حدیث پر عمل کیا جائے تو کل دس رکعتیں ہو گئیں۔ یہاں ایک بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ سنن اربعہ، مسند احمد، مستدرک حاکم اور شرح السنہ بغوی میں ایک حدیث ہے جس میں ظہر کے فرضوں کے بعد بھی چار ہی سنتوں کا ذکر ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
من حافظ على أربع ركعات قبل الظهر وأربع بعدها حرمه الله على النار
ابوداؤد مع العون 13/7/2، جامع الاصول 18/7، نیل الاوطار 16/3/2، مشکاة 328/1 و صححه الالبانی، شرح السنہ 464/3 و صححه محققوه بمجموع طرقه
جو شخص نماز ظہر کے فرضوں سے پہلے چار اور فرضوں کے بعد بھی چار رکعتیں پابندی کے ساتھ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے
اس طرح ظہر کی کل رکعتیں بارہ ہو گئیں: چار سنتیں پہلے، پھر چار فرض اور چار ہی بعد میں۔ اس حدیث میں جو حیثیت پہلی چار سنتوں کی ہے وہی بعد والی چاروں کی ہے۔ لہذا بعد والی چار رکعتوں میں جو دو سنتیں اور دو نفل کا فرق کیا جاتا ہے وہ تو ثابت نہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چاہے تو چار سنتیں پڑھ لے یا دو پر ہی اکتفا کر لے، جیسا کہ فرضوں سے پہلے کی سنتوں میں اختیار اور وسعت ہے، البتہ اکثر اوقات اور بعض اوقات کی جو تفصیل گزری ہے وہ سامنے رکھنا زیادہ مناسب ہے۔
نماز عصر کے ساتھ مؤکدہ سنتیں تو کوئی نہیں، البتہ غیر مؤکدہ سنتوں کا پتا چلتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی دو طرح کی احادیث ہیں۔ بعض میں چار سنتوں کا ذکر ہے اور بعض میں صرف دو رکعتیں ہی مذکور ہیں، چنانچہ ابوداؤد، ترمذی، مسند احمد اور شرح السنہ بغوی میں ارشاد نبوی ہے:
رحم الله امرأ صلى قبل العصر أربعا
شرح السنہ 470/3 و صححه محققوه وصححه ابن خزیمہ، جامع الاصول 19/7، مشکاة 367/1 و حسنه الالبانی
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو نماز عصر کے فرضوں سے پہلے چار رکعتیں پڑھتا ہے
اسی طرح ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل العصر أربع ركعات يفصل بينهن بالتسليم
صحیح ابن خزیمہ 218/2 و حسنه الالبانی، شرح السنہ 467/3 و حسنه و حسنه الترمذی، مشکاة مع المرعاة 149/4، حدیث 598,599، صحیح الترمذی 135/1 و الالبانی المشکاة 368/1، جامع الاصول 19/7، مسند احمد 143-146/5 و صححه احمد شاکر المصری 494/1، سنن ابن ماجہ 367/1، حدیث 1161
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ان کے مابین (دو رکعتوں کے بعد) سلام پھیر کر فصل کیا کرتے تھے
یعنی اکٹھی چار ایک سلام سے نہیں، بلکہ درمیان میں بھی سلام پھیرتے تھے۔ لیکن جائز دونوں طرح ہی ہے، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
دیکھیے عنوان نماز ظہر کی سنن راتبہ
ابوداؤد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے:
وكان النبى صلى الله عليه وسلم يصلي قبل العصر ركعتين
ابوداؤد مع العون 50/4 و حسنه الالبانی فی المشکاة 368/1 والارواء فی تحقیق زاد المعاد 311/1
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے
لہذا دونوں طرح ہی جائز ہے، چاہے تو چار سنتیں پڑھ لے یا دو، اور یہ سب ہیں بھی غیر مؤکدہ۔ عصر سے پہلے چار سنتوں کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ متن میں ان کے پڑھنے والے کے لیے دعائے نبوی رحم الله کا گزری ہے۔ طبرانی کبیر واوسط میں ہے:
لم تمسه النار
اسے آگ نہیں چھوئے گی
ابونعیم میں ہے:
غفر الله له
اللہ اسے بخشے
ابویعلی میں ہے:
بنى الله له بيتا فى الجنة
اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنادیتا ہے
طبرانی کبیر میں ہے:
وحرم الله بدنه على النار
انظر التفصیل عون المعبود 139/3
اللہ اس کا جسم آگ پر حرام کر دیتا ہے
فليتنا من المتسابقين والله الموفق
مغرب کے فرضوں سے پہلے دو سنتیں (غیر مؤکدہ)
نماز مغرب کے فرضوں کے بعد دو سنتیں تو مؤکدہ ہیں، جن کا ذکر سنن راتبہ کے ضمن میں ہو چکا ہے۔ مغرب کے فرضوں سے پہلے بھی دو رکعتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ اگرچہ وہ غیر مؤکدہ ہیں، لیکن ان کا ادا کرنا سنت و مستحب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل کیا اور لوگوں کو ان کا حکم فرمایا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ دو رکعتیں بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت اس سنت کو چھوڑے ہوئے ہے، اور اگر کوئی شخص اس پر عمل کرتا ہے تو اسے تعجب سے گھور اور معیوب سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان دو رکعتوں کا ثبوت متعدد صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین سے ملتا ہے۔ مثلاً:
حدیث نمبر 1:
صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری و مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وابن ماجہ میں اسی طرح دارقطنی وابن خزیمہ میں ارشاد نبوی ہے:
بين كل أذانين صلاة، بين كل أذانين صلاة
ہر اذان و اقامت کے مابین دو رکعت نماز ہے، ہر اذان و اقامت کے مابین (دو رکعت) نماز ہے
راوی حدیث حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وقالها ثلاثا وقال فى الثالثة لمن شاء
بخاری مع الفتح 102/2 و 110/2، مسلم مع النووی 124/6، ابوداؤد مع العون 22/4، ترمذی مع التحفہ 548/1، ابن ماجہ 368/1، ابن خزیمہ 266/2، دارقطنی 266/1، نسائی 28/2
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ کہے اور تیسری مرتبہ یہ بھی فرما دیا کہ جس کا جی چاہے پڑھے (یعنی مؤکدہ نہیں ہیں)
کبار علماء احناف میں سے علامہ سندھی ابن ماجہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں جو حکم دیا گیا ہے اس کا عموم نماز مغرب کو بھی شامل ہے، اور حدیث انس رضی اللہ عنہ وغیرہ میں تو مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کی واضح صراحت موجود ہے، لہذا اس عمل کو مکروہ کہنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔
حاشیہ ابن ماجہ بحوالہ المرعاة 100/2
حاشیہ نسائی میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتوں کے جواز بلکہ ندب و استحباب پر دلالت کرتی ہیں۔
حاشیہ نسائی للسندھی مع شرح السیوطی 28/3/1، ابن خزیمہ طبع دار الفکر بیروت
علماء احناف میں اختلاف ہے، بعض نے انہیں مستحب کہا ہے، جیسا کہ علامہ سندھی وغیرہ ہیں۔ الکوکب الدری میں صحیح اسے ہی قرار دیا گیا ہے کہ اگر ان سے تکبیر تحریمہ کے چھوٹنے کا اندیشہ نہ ہو تو ان کا پڑھنا مستحب ہے۔
الکوکب الدری 103/1 بحوالہ فقہ السنہ اردو 253/1
عرب ممالک میں اذان مغرب کے بعد باقاعدہ دو رکعتوں کے لیے وقفہ دیا جاتا ہے اور تکبیر تحریمہ چھوٹنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس طرح گویا یہاں احناف کے نزدیک بھی یہ دو رکعتیں مستحب ہیں۔
حدیث نمبر 2:
علامہ سندھی نے جس حدیث انس رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ صحیح بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور مسند احمد و دارقطنی میں ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
كنا بالمدينة فإذا أذن المؤذن لصلاة المغرب ابتدروا السواري فيركعون ركعتين ركعتين
بخاری مع الفتح 771/2، مسلم مع النووی 123/6، ابن ماجہ 368/1، ابن خزیمہ 226/2، دارقطنی 267/1
مدینہ منورہ میں ہم لوگوں کی عادت تھی کہ جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو سب لوگ دوڑ کر ستونوں کی آڑ میں دو رکعت پڑھا کرتے تھے
مسلم وغیرہ میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ لوگ ان دو رکعتوں کو اتنی کثرت سے پڑھا کرتے تھے کہ اگر کوئی نیا آدمی مسجد میں آتا تو سمجھتا کہ فرض نماز پڑھی جاچکی ہے اور لوگ شاید بعد والی سنتیں پڑھ رہے ہیں۔
صحیح مسلم 123/2/3
بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ ستونوں کی آڑ میں یہ سنتیں پڑھتے تھے۔ بخاری و مسلم کی ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کی اکثریت کا عمل یہی تھا۔
حدیث نمبر 3:
اسی طرح صحیح بخاری شریف میں ارشاد نبوی ہے:
صلوا قبل صلاة المغرب
نماز مغرب سے پہلے (دو رکعت) نماز پڑھو .
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے اور تیسری مرتبہ فرمایا:
لمن شاء
جو چاہے پڑھے .
حضرت عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چاہے پڑھے اس لیے کہا کہ لوگ کہیں ان دو رکعتوں کو سنت مؤکدہ نہ سمجھ لیں۔ بخاری شریف میں تو مطلق صلوة ہے، جبکہ ابوداؤد وغیرہ میں صراحت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
صلوا قبل المغرب ركعتين
بخاری مع الفتح 337/3، 59/4
مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں پڑھو .
حدیث نمبر 4:
جبکہ صحیح مسلم و ابوداؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہم غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ راوی حدیث مختار بن غلفل پوچھتے ہیں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
وكان يرانا نصليها فلم يأمرنا ولم ينهنا
مسلم مع النووی 123/6/3، ابوداؤد مع العون 161/4
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں پڑھتے ہوئے دیکھتے تو نہ ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ اس سے منع فرماتے تھے
واضح بات ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک کام تو مکروہ ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع نہ فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منع نہ فرمانا دلیل استحباب کی ہے۔
حدیث نمبر 5:
اسی طرح بخاری شریف، مسند احمد، دارقطنی اور بیہقی میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی مذکور ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
إنا كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم
بخاری مع الفتح 59/3، دارقطنی 468/1
ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ (دو رکعتیں) پڑھا کرتے تھے
حدیث نمبر 6:
صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى قبل المغرب ركعتين
موارد الضمان زوائد ابن حبان، حدیث 617 ص 63، وأخرجه المروزی فی قیام اللیل کما فی نصب الرایہ 41/2، عون المعبود 162/2، تحفہ الاحوذی 552/1، تعلیق المغنی 266/1، بلوغ المرام مع سبل السلام 5/2، طبع بیروت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں۔
حدیث نمبر 7:
دارقطنی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من صلاة مكتوبة إلا بين يديها ركعتان
دارقطنی 267/1، المروزی فی قیام اللیل ص 26، صحیح ابن حبان، نصب الرایہ 142/2، تعلیق المغنی 266/1، ابن خزیمہ 548/2، ترمذی 538/1
ہر فرض نماز کے پہلے دو رکعت ہے۔