سوال
کیا فال نیک و بد سچ ثابت ہوتے ہیں؟
اور کیا اسلام میں فال دیکھنے کی اجازت ہے؟
جواب
الحمد اللہ و الصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ!
اسلام کی تعلیمات کے مطابق، نیک و بد فال نکالنے یا دیکھنے کا جو رواج عوام الناس اور جاہل افراد میں پایا جاتا ہے، جیسا کہ دیوانِ حافظ یا قرآن سے فال نکالنا، اس کی کوئی بنیاد قرآن، حدیث یا صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کے عمل سے نہیں ملتی۔ لہٰذا:
❌ قصداً فال نکالنا: بدعت و ممنوع عمل
قرآن اور حدیث میں اس عمل کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال و افعال میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
فال نکالنے کا یہ طریقہ بدعت ہے اور شریعت میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
❌ بدفالی کی ممانعت: صریح احادیث کی روشنی میں
بدفالی سے سختی سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے:
ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ (حدیث نمبر 3911، جلد 4، صفحہ 231)
ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الطیرۃ (حدیث نمبر 1614، جلد 4، صفحہ 160)
✅ نیک فال لینا: شرعی لحاظ سے جائز
اسلام میں نیک فال لینا جائز اور مشروع ہے، بشرطیکہ یہ:
◈ ارادۃ و قصد کے بغیر ہو
◈ کوئی اچانک آواز یا واقعہ مثبت مفہوم میں لیا جائے
✅ تفاؤل مشروع و مباح کی مثالیں:
کوئی شخص کسی کام کے لیے گھر سے نکلا
راہ چلتے اچانک اس کے کان میں کسی کی آواز پڑی جیسے:
"فائز”
"مفلح”
"رباح”
"افلح”
"یسار”
"برکت”
اگر اس شخص نے دل میں نیک گمان کرلیا کہ ان شاء اللہ اس کا کام مکمل ہوگا یا تجارت میں نفع ہوگا، تو یہ تفاؤل مشروع اور مستحب ہے۔
❌ قصداً فال نکالنا: ناجائز عمل
ارادۃً اور قصدًا فال نکالنے یا دیکھنے کی کوشش کرنا:
◈ غیر مباح
◈ غیر جائز
◈ شریعت میں اس کی اجازت نہیں
واللہ اعلم بالصواب ھذا ما عندی