غیر اہل حدیث امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا شرعی حکم
ماخوذ: احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 158

سوال

جس محلے میں میری رہائش ہے وہاں کوئی اہل حدیث مسجد موجود نہیں، تاہم قریبی علاقے میں ایک دیوبندی مسجد ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہاں نماز باجماعت کافی دیر سے ادا کی جاتی ہے، جس کے باعث مجھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں بہت دشواری محسوس ہوتی ہے۔ کیا اگر میں اس مسجد میں ان کی امامت میں نماز ادا کر لوں تو کیا میری نماز ادا ہو جائے گی؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

"میرے بعد کچھ ایسے امراء ہوں گے جو نماز کو تاخیر سے ادا کریں گے۔”
ایک صحابیؓ نے عرض کیا: "ایسے حالات میں ہم کیا کریں؟”
آپﷺ نے فرمایا:
"نماز کو اپنے وقت پر ادا کر لیا کرو، اور اگر ان کی جماعت میسر آ جائے تو اس میں بھی شامل ہو جاؤ، وہ تمہارے لیے نفل شمار ہو گی۔”
(مسلم: کتاب المساجد، باب کراہیۃ تاخیر الصلوٰۃ عن وقتھا المختار، ابو داؤد: کتاب الصلاۃ، باب اذا اخر الامام الصلوٰۃ عن الوقت)

شرک کرنے والے کی امامت کا حکم

اگر کوئی شخص شرک میں مبتلا ہو، تو اس کی امامت میں نماز ادا نہیں کی جا سکتی، چاہے وہ ظاہری طور پر اہل حدیث ہی کیوں نہ ہو۔

یاد رکھیں! کتاب و سنت کے خلاف قول کو تسلیم کرنا تقلید کہلاتا ہے، اور تقلید شرک کے زمرے میں آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَٰنَهُمۡ أَرۡبَابٗا مِّن دُونِ ٱللَّهِ…﴾
"انہوں نے اپنے احبار اور درویشوں کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیا”
(الآیة)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1