سوال
غصے میں دی گئی طلاق کا حکم کیا ہے؟
اگر کوئی مرد غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے اور بعد میں اس پر نادم ہو، تو اس صورت میں شریعت کی روشنی میں اس کا کیا حل ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم
◈ شریعت کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں طلاق دیتا ہے تو یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
◈ اس مسئلے کی دلیل ایک حدیث مبارکہ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: النکاح والطلاق والرجعة»
"تین چیزیں ایسی ہیں جنہیں سنجیدگی سے کیا جائے یا مذاق میں، دونوں صورتوں میں وہ واقع ہو جاتی ہیں: نکاح، طلاق، اور رجعت۔”
(سنن ابی داود: ۲۱۹۴)
حدیث کی حیثیت
◈ اس حدیث کی سند "حسن” ہے۔
◈ امام ترمذی نے اسے "حسن غریب” قرار دیا ہے۔
◈ امام حاکم نے اپنی کتاب میں (جلد 2، صفحہ 198) اس حدیث کو "صحیح” کہا ہے۔
◈ حدیث کے راوی عبدالرحمن بن اردک کو "حسن الحدیث” شمار کیا گیا ہے۔
(ماخذ: نیل المقصود، جلد 2، صفحہ 560)
دیگر شواہد
◈ اس مضمون کی متعدد دیگر احادیث بھی شاہد کے طور پر موجود ہیں۔
◈ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ کریں:
(التلخیص الجبیر، جلد 3، صفحہ 210)
نتیجہ
◈ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، چاہے اس کے بعد آدمی پشیمان ہو۔
◈ اس مسئلے میں شریعت کا حکم واضح اور متعین ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب